سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کی جنرل الیکشن 2024 کے حوالے سے لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق درخواست پر سماعت ملتوی کردی جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتیں الیکشن کیلئے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کی لیول فیلڈ پلیئنگ سے متعلق درخواست پر سماعت کی جس کے دوران سردار لطیف کھوسہ نے پارٹی کی بطور وکیل نمائندگی کی۔
پی ٹی کی اضافی دستاویزات
سماعت سے قبل پی ٹی آئی وکلاء نے اضافی دستاویزات بھی سپریم کورٹ میں جمع کروائیں جن میں موقف اختیار کیا گیا کہ پی ٹی آئی کے 668 اہم رہنماؤں کے کاغذات مسترد ہوئے، 2000 کے قریب حمایت یافتہ اور سیکنڈ فیز رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی کو بھی مسترد کیا گیا۔
اضافی دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی چھیننے کے 56 واقعات پیش آئے جبکہ تجویز کنندہ اور تائید کنندگان کو بھی گرفتار کیا گیا اور اس حوالے سے ویڈیو ثبوت بھی سپریم کورٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
سماعت کا آغاز اور لطیف کھوسہ پر اظہار برہمی
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل لطیف کھوسہ کے ساتھ سردار کا نام ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ سرداری نظام ختم ہو چکا ہے یہ سردار نواب عدالت میں نہیں چلے گا۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کیا کہ آپ کی حکومت نے ہی سرداری نظام ختم کرنے کا قانون بنایا، اب تو آپ کے بیٹے بھی سردار ہو گئے ہیں جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ یہ اسٹینو نے نام کے ساتھ لکھ دیا آئندہ احتیاط کروں گا۔
لطیف کھوسہ کے دلائل
لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ لیول پلیئنگ فلیڈ صحت مندانہ مقابلے کے لیے ضروری ہے جس پر جسٹس میاں محمد علی مہظر نے ریمارکس دیئے کہ یہ توہین عدالت کا کیس ہے یہ کوئی نئی پٹیشن نہیں ہے، آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے جو توہین کی وہ بتائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے آپ کو آرڈر کیا دیا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ہمیں الیکشن کمیشن نے کچھ آرڈر نہیں دیا ، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اتنے لوگوں کو توہین عدالت کیس میں فریق بنایا، آپ بتائیں کس نے کیا توہین کی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں بتائیں آپ ہم سے چاہتے کیا ہیں؟ اب آپ تقریر نہ شروع کر دیجئے گا، آئینی اور قانونی بات بتائیں ہر کوئی یہاں آ کر سیاسی بیان شروع کر دیتا ہے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کا الیکشن کمیشن سے کیا تعلق ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ثبوت کیا ہیں ہمیں کچھ دکھائیں جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میں نے ساری تفصیل درخواست میں لگائی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت کیس میں آپ صرف الیکشن کمیشن کو فریق بنا سکتے تھے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کو نوٹس بھیجا وہ کہیں گے ہمارا تعلق نہیں۔
انفرادی کارروائی کیلئے الگ درخواست دائر کریں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ انفرادی طور پر لوگوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں تو الگ درخواست دائر کریں ، کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں تو اپیل دائر کریں جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں اپیل کرنے کے لیے آراو آرڈرز کی نقل تک نہیں مل رہی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کے کتنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے، آپ نے لکھا سارا ڈیٹا سوشل میڈیا سے لیا جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا بات ختم۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ تین دن تک آرڈر کی کاپی نہیں ملی ، اپیل کہاں کریں جس پر جسٹس مظہر نے کہا کہ آپ نے لوگوں کے نام کی جگہ میجر فیملی لکھا ہوا ہے، لطیف کھوسہ نے وضاحت کی کہ میجر (ر ) طاہر صادق کا ذکر ہے۔
آپ چاہتے ہیں ہم الیکشن کمیشن کا کام کریں،چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم الیکشن کمیشن کا کام کریں، آراو کے فیصلے کی کاپی نہیں ملتی تو کاپی کے بغیر ٹریبونل میں درخواست دیں ، ہم کیسے دوسرے فریق کو سنیں بغیر آپ کی اپیل منظور کر لیں، ہم کیسے کہہ دیں کہ فلاں پارٹی کے کاغذات منظور کریں ،فلاں کے مسترد؟، آپ بتائیں ہم کیا آرڈر پاس کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتیں الیکشن کیلئے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں، آپ ٹریبونل میں اپیلیں دائر کریں اس کے بعد ہمارے پاس آئیں تو سن لیں گے۔
الیکشن کمیشن حکام
دوران سماعت عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن حکام کو روسٹرم پر بلا یا اور استفسار کیا کہ ٹریبونل میں اپیل دائر کرنے کا وقت کب تک ہے جس پر ڈائریکٹر جنرل ( ڈی جی ) لاء الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ آج آخری دن ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کھوسہ صاحب ٹریبونل جائیں پھر یہاں کیا کر رہے ہیں جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ہماری شکایت پر الیکشن کمیشن نے تمام صوبوں کے آئی جیز کو ہدایات دیں، سارے آئی جیز کا اس لیے اس کیس سے تعلق ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی شکایات کی کاپی کہاں ہے جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ میں نے شکایات کی کاپی ساتھ نہیں لگائی جس پر چیف جسٹس بولے کہ پھر الیکشن گزر جائیں گے تو کاپی لگا لیجیے گا۔
لطیف کھوسہ کی سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا
لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہماری شکایت پر صرف صوبوں کو ایک خط لکھ دیا، کیا الیکشن کمیشن صرف ایک خط لکھ کر ذمہ داریوں سے مبرا ہو گیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ توہین عدالت کے سکوپ تک رہیں، یہ بتائیں ہمارے 22 دسمبر کے حکمنامہ پر کہاں عملدرآمد نہیں ہوا، الیکشن کمیشن نے تو 26 دسمبر کو عملدرامد رپورٹ ہمیں بھیج دی۔
دوران سماعت لطیف کھوسہ نے سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم روز آپ کیلئے نہیں بیٹھ سکتے ، آپ کو عملدرآمد رپورٹ مل گئی اس پر جواب دے دیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں زیادہ وقت آپ کا ضائع نہیں کروں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ وقت ضائع کریں ہم رات تک بیٹھے ہیں، الیکشن کمیشن نے 26 دسمبر کو آپ کے تحفظات دور کرنے کا آرڈر جاری کیا، 26 دسمبر کے بعد کہاں کیا ہوا وہ بتائیں جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ میڈیا میں سب کچھ آچکا ہے دنیا نے سب کچھ دیکھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں تو میڈیا دیکھتا ہی نہیں جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ صرف کاسمیٹک عملدرآمد نہیں آپ بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، آپ نے شفاف الیکشن یقینی بنانے ہیں، الیکشن کمیشن نے عملدرآمد رپورٹ میں وہی خط لگائے جو ہماری درخواست میں بھی ہے۔
35 پنکچر والی بات اسی عدالت میں ہوٸی تھی، لطیف کھوسہ
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اپنی درخواست میں کوٸی بھی ایک مخصوص الزام نہیں لگایا، آپ لکھ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن پابند ہے صاف و شفاف الیکشن کا، ہم کہتے ہیں ہاں، آپ نے 2013 کے الیکشن میں بھی الزامات لگائے ، عدالت نے تب بھی وقت ضاٸع کیا، کوٸی ٹھوس الزام نہ نکلا۔
لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ 35 پنکچر والی بات اسی عدالت میں ہوٸی تھی، عدالت نے کہا تھا کہ آرگناٸز دھاندلی نہیں ہوٸی ، اس معاملے کا آج کے حالات سے کوٸی موازنہ نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر آپ نے ہی تعینات کیا تھا ہم نے نہیں ، مسٸلہ یہ ہے کہ کوٸی بھی اپنی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، ہمارا 22دسمبر سے سخت کوٸی اورآرڈر نہیں ہوسکتا، آپ نے اس کے بعد الیکشن کمیشن کو کوٸی شکایت کی ہو تو بتا دیں۔
کیا آپ انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ دے رہے ہیں، الیکشن کمیشن حکام سے استفسار
جسٹس محمد علی مظہر نے الیکشن کمیشن حکام سے استفسار کیا کہ کیا آپ انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ دے رہے ہیں جس پر ڈی جی لاء نے جواب دیا کہ ان کی ہر شکایات کو ہم نے متعلقہ اتھارٹی کو بھیجا جہاں قانون کے مطابق اس پر فیصلے ہوئے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ تاریخ کی بدترین پری پول دھاندلی ہو رہی ہے، آر اوز دفتر کے باہر سے لوگوں کو اُٹھا لیا جاتا ہے اس معاملے پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتی، میرے اپنے بیٹے کو گرفتار کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا بنیادی الزام کس پر ہے صرف پنجاب کا مسئلہ ہے، کیا پنجاب کا ایڈووکیٹ جنرل موجود ہے؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب موجود نہیں ہیں۔
چیف سیکرٹری پنجاب، آئی جی پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری
چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ آپ نے آئی جی کے خلاف الیکشن کمیشن کو کارروائی کے لیے لکھا جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ہم نے نہیں ان کے اپنے صوبائی الیکشن کمیشن نے خط لکھا کہ عمل نہیں ہو رہا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا اپنا صوبائی الیکشن کمیشن لکھ رہا اس پر آپ کو ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا۔
بعدازاں، عدالت عظمیٰ نے چیف سیکرٹری پنجاب، آئی جی پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 8 جنوری تک ملتوی کردی اور متعلقہ حکام سے جواب طلب کر لیا۔
آج کی سماعت کا حکمنامہ
آج کی سماعت کے حکنامے کے مطابق عدالت کے سامنے صوبائی الیکشن کمشنر کے خط کو بنیاد بنایا گیا، الیکشن کمیشن حکام نے کہا وہ شفاف الیکشن کی ہر کوشش کر رہے ہیں، پی ٹی آئی وکیل سے پوچھا گیا کوئی مخصوص الزام بتائیں جس پر انہوں نے صوبائی الیکشن کمشنر کا خط دکھایا۔
حکنامے کے مطابق چیف سیکرٹری پنجاب، آئی جی پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے اور کیس کی آئندہ سماعت پیر کو ہوگی۔