الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے حتمی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کئے جانے کے بعد سیاسی گہما گہمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جہاں سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں تو وہیں سیاسی کھلاڑیوں نے اپنے اپنے حلقوں کے ناراض ووٹرز کو منانے کیلئے بھی جد و جہد تیز کر دی ہیں ۔ جیسے جیسے الیکشن کی تاریخ نزدیک آ رہی ہے پشاور کی سیاسی صورتحال اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے بھی نئے راستے تلاش کر رہے ہیں۔
2018ء کے عام انتخابات میں پشاور کی5 قومی اسمبلی کی نشستیں تھیں جبکہ حتمی حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کی نشستوں میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی جبکہ صوبائی اسمبلی کی 14 نشستوں میں 1 کی کمی کے بعد 13 ہو گئی ہیں ۔
الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق پاکستان میں آئندہ عام انتخابات آٹھ فرورری کو ہوں گے۔ شیڈول کے اعلان کے بعد سے وفاق سمیت تمام صوبوں میں سیاسی جوڑ توڑ کا عمل جاری ہے۔2018 کے پی اسمبلی میں تحریک انصاف کا گڑھ سمجھے جانے والے خیبر پختونخوا میں سیاسی ماحول گرم ہے اور تمام سیاسی جماعتوں نے بھی جلسوں کا آغاز کر دیا ہے۔
یاد رہے کے نو مئی کے پر تشدد واقعات کے بعد بہت بڑے بڑے سیاسی نام خود کو تحریک انصاف سے دور کر چکے ہیں جن میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے بڑے سیاسی رہنما بھی شامل ہیں۔تحریک انصاف کے دو سابق وزیر اعلی پرویز خٹک اور محمود خان نے بھی اپنی راہیں جدا کر کے نئی سیاسی پارٹی تحریک انصاف پارلیمنٹرین کی بنیاد رکھ دی ہے ۔تحریک انصاف کے سابق ایم این اے شوکت علی نے بھی پارٹی کو خیر با دکہہ دیا ہے۔
خیا ل رہے پرویز خٹک نے اپنے سیاسی کرئیر کاآغاز 1988 میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے کیا تھا۔1997 تک پیپلزپارٹی کے ساتھ وابستہ رہے بعدازاں انہوں نے اپنا سیاسی مسکن پیپلزپارٹی شیر پاؤ کو بنا لیا۔2013 میں پیپلزپارٹی شیر پاؤ پارٹی کو بھی خد احافظ کہہ کر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر ارباب عالمگیر اور اُن کی اہلیہ نے پاکستان پیپلزپارٹی کو ایسے وقت میں خیرباد کہاجب چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری ایک ہفتے کے دورے پر خیبرپختونخوا میں موجود تھے۔ ارباب عالمگیر 2008 سے 2013 تک وفاقی وزیر رہ چکے تھے جب کہ ان کی اہلیہ عاصمہ عالمگیر بھی سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی کابینہ میں بطور مشیر تھیں۔
گزشتہ انتخاب میں کون کہاں سے جیتا اور ہارا
2018ء کو عام انتخابات کی بات کی جائے تو پشاور کے قومی حلقےاین اے-27 سے پاکستان تحریک انصاف کے نور عالم خان بھاری اکثریت سے جیتے تھے جبکہ این اے-28 سے پاکستان تحریک انصاف کے ارباب عامر ایوب نے میدان مارا اسی طرح این اے-29 اور این اے-30 سے بالترتیب ناصر خان اور شیر علی ارباب نے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی اور مجموعی طور پر پشاور سے پاکستان تحریک انصاف نے کلین سویپ کیا تھا۔این اے 31 سے تحریک انصاف کے شوکت عزیز نے عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر حاجی غلام احمد بلور کو 45ہزار449ووٹوں کے مارجن سے شکست دی تھی۔پشاور کی 5نشستوں میں سے 4نشستوں پر تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل کے امیدوار مد مقابل تھے جبکہ پی ٹی آئی کی امیدواروں کے ووٹوں کا تناسب 50فیصد سے زیادہ تھا۔
صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف نے14نشستوں میں سے 1،12عوامی نیشنل پارٹی نے جبکہ ایک نشست پر الیکشن ملتوی ہوا تھا۔ خیبر پختونخوا کی عوام نے مسلسل کسی جماعت کو تختہ اقتدا نہیں سونپا لیکن تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے عوام نے مسلسل دو بار صوبے کا حکمران بنایا۔2023 کی حتمی حلقہ بندیوں کے بعداس بارجہاں قومی اسمبلی کی ایک نشست میں اضافہ ہواتو دوسری جانب صوبائی اسمبلی کی ایک نشست میں کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے ۔
پشاور کا سیاسی منظر نامہ کیا؟
خیبر پختونخوا کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو کہ یہاں کی عوام ملک کے دوسرے صوبوں کی مانند روایتی سیاست پر یقین نہیں رکھتی بلکہ ہر آنے والے جمہوری دور میں نیا تجربہ کرتے ہوئے نئی قیادت پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتی ہے ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے پنجے نہیں جما سکی لیکن پچھلے دس سالوں سے خیبرپختونخوا کی سیاست پی ٹی آئی کے اردگرد گھومتی رہی ہے۔
2013 میں پی ٹی آئی پہلی مرتبہ صوبے میں اقتدار میں آئی تھی جب کہ 2018 کے انتخابات میں اسے دو تہائی اکثریت ملی تھی۔ تاہم نو مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی سیاست مشکلات سے دو چار ہے۔جہاں دوسری سیاسی جماعتوں نے اپنے جلسے جلوس اور کارنر میٹنگز شروع کی ہیں۔حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے انتخابی اتحاد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کی جانب سے مختلف حلقہ جات سے نامزد امیدواران کی فہرست بھی جاری کر دی گئی ہے۔سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار کوئی بھی سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی تاہم عوامی مینڈیٹ منقسم دکھائی دے گا ۔
سیاسی جماعتیں نئے بیانیے کے ساتھ انتخابی میدان میں
خیبر پختونخوا کی عوام کا سیاسی مزاج دوسرے صوبوں کی عوام مختلف ہے یہاں کوئی پارٹی یہ دعوی نہیں کر سکتی کے وہ یہاں پر مظبوط ہے کیونکہ یہ صوبہ کسی پارٹی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ماہرین کے مطابق یہاں کی عوام بقیہ پاکستان کی عوام کی نسبت زیادہ سیاسی بصیرت رکھنے والی ہے اور ان کے ووٹ دینے کا رجحان بھی مختلف ہے اور عوامی ہمدری کا ووٹ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ پرانی سیاسی جماعتوں میں تقسیم در تقسیم کی وجہ سے نئی جماعتوں کا جنم کوئی نئی بات نہیں ہے ایسا ہی کچھ تحریک انصاف میں بھی دیکھنے میں آیا کہ آئندہ انتخابات سے پہلے استحکام پاکستان پارٹی اور تحریک انصاف پارلیمینٹیرینز نے جنم لیا اور پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی مشکلات میں اضافہ کرتے ہوئے ان کا ووٹ بینک بھی الیکٹیبلز کے ساتھ تقسیم ہو رہا ہے۔ نئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکٹیبلز کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کا سلسلہ زوروشور سے جاری ہے۔قیادت سے مرحوم تحریک انصاف کے اب ووٹرز مختلف اضلاع میں متحرک ہو رہے ہیں ۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی بھی خوب جلسے جلوس کرنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے اس وقت پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جو انتخابی جلسے کرنے میں مگن ہے جبکہ دوسری جماعتیں سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں عوامی نیشنل پارٹی کا پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا یہ بات واضح کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی نہ صرف یہ کہ ووٹ بینک تقسیم کرے گی بلکہ کچھ نشستیں ایسی ہیں کہ جہاں سے اس کی جیت کے امکانات بھی نظر آ رہے ہیں ۔ن لیگ بھی خیبر پختونخوا میں سیاسی طور پر متحرک نظر آرہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام بھی سیاسی ناراض کارکنوں کو ن لیگ میں شامل کر رہے ہیں اور پارٹی پوزیشن کو خاصہ مضبوط کرنے میں پیش پیش ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف بھی پشاور میں نئے چہرے سامنے لانے کا اعلان کر چکی ہے۔ تاہم پارٹی ٹکٹ کے حوالے سے گہما گہمی ابھی جاری ہے۔
عوامی حلقوں میں کیا تشویش پائی جاتی ہے؟
اس تمام تر موجودہ صورتحال میں اگر خیبر پختونخوا کی باالعموم اور پشاور کی بالخصوص بات کی جائے تو عوامی حلقوں میں انتخابات کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ انتخابات نہیں ہوں گے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ انتخابات کے میدان میں پتحریک انصاف کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنا انتخابات کے ٖغیر شفاف ہونے کے مترادف ہونگے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے سماء کے رپورٹر نے بتایا کہ نومئی کے پر تشدد واقعات کے بعد ضلع پشاور کی سیاسی صورتحال میں ہر نئے دن کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔پشاور کے اہم حلقوں کے الیکٹیبلز کا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی وجہ سے ضلع میں کون سی جماعت بازی لے گی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔