پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے این ڈی ایم اے کے کردار پر سوالات اٹھا دیے۔
چیئرمین کمیٹی جنید اکبر خان کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں رکن کمیٹی نے پوچھا اگر متاثرہ علاقوں میں ڈبل ون ڈبل ٹو اور ضلعی انتظامیہ کام کرتی ہے تو پھر این ڈی ایم اے کیا کرتی ہے۔ کیا اس کا کام صرف لاشیں اٹھانا ہے۔ اگر ارلی وارننگ اور موسم کی صورتحال این ڈی ایم اے نے بتانی ہے تو پھر محکمہ موسمیات کیا کرتا ہے؟۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں مون سون 22 فیصد زیادہ شدت کے ساتھ آیا، پاکستان کے پاس ساڑھے 7 ہزار گلیشیئرز ہیں، 45 فیصد گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، حالیہ سیلاب گلیشیئرز پگھلنے کے نتیجے میں آیا، اگلے سال کا سیلاب ہمارے لیے زیادہ نقصان دہ ہوگا۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ ابھی تک بارشوں میں 800 اموات اور 1100 زخمی ہوئے، ملک میں حالیہ مون سون کے 7 سپیل گزر چکے ہیں، ملک میں مون سون کا 8واں سپیل آنے والا ہے، مون سون کا 8 واں سپیل 2 سے 11 ستمبر تک رہے گا، موجودہ سال کے مقابلے اگلے سال میں 22 فیصد زائد بارشیں ہو سکتی ہیں۔
کمیٹی کو دوران بریفنگ بتایا گیا کہ اگر 2 ڈگری درجہ حرارت بڑھا تو 52 سال میں 65 فیصد گلیشیئر پگھل جائیں گے، سارے گلیشیرز پگھل گئے تو پاکستان کے پاس پانی نہیں بچے گا، ایسی صورتحال میں پاکستان میں شدید خشک سالی اور قحط جیسی صورتحال ہو سکتی ہے۔
انعام حیدر کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ ریموٹ سینسنگ پر کام کیا جائے، ابھی تک ہمارا نظام زیادہ تر گراونڈ سینسنگ پر منحصر ہے، ریموٹ سینسنگ کا مطلب موسمیاتی سیارے کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
اراکین نے پوچھا کہ بتائیں کہ ادارے کو کتنے فنڈز ملتے ہیں اور ان کی تقسیم کس طرح ہوتی ہے، ارلی وارننگ کی ذمہ داری محکمہ موسمیات کی ہے اور یہ کام این ڈی ایم اے کر رہا ہے۔ کیا این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کا کام صرف لاشیں اٹھانے کا طریقہ کار بتانا ہے۔
جنید اکبر خان کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے بتائے کہ کلاوڈ برسٹ کے حوالے سے پیشگوئی کس طرح کی جا سکتی ہے، جہاں کلاوڈ برسٹ ہوئے وہ لوگ تو بےچارے اپنے گھروں میں تھے، یہ متاثرہ لوگ کسی دریا ندی کے کنارے نہیں رہتے تھے۔
چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے کہا کہ بارشوں کے موسم میں دو سے تین ہفتے تک سیاحت پر پابندی ہونی چاہئے۔






















