قومی اسمبلی نے انسداد دہشتگردی ترمیمی بل 2024 منظور کرلیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس میں انسداد دہشتگردی بل 2024کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا، اپوزیشن نے انسداد دہشتگردی ترمیمی بل 2024 کی مخالفت کی، اپوزیشن نے بل کی منظوری کے دوران احتجاج کیا اور نعرے لگائے۔
ایکٹ کی ایک شق میں تین سال کی توسیع کردی گئی۔ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کو مزید اختیارات مل گئے۔
ترمیمی بل کے تحت قومی سلامتی کو لاحق سنگین خطرات پر مشتبہ افراد کی پیشگی گرفتاری کی اجازت ہوگی، مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کے ذریعے جامع تحقیقات ممکن ہوسکے گی، مسلح افواج اور سویلین اداروں کو مشتبہ افراد کی حراست کا قانونی اختیار مل گیا۔
وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ ترمیم کا مقصد دہشتگردی کی روک تھام اور سیکیورٹی کو مضبوط بنانا ہے، ترمیم سے قانون نافذ کرنے والے ادارے مؤثر کارروائی کر سکیں گے، خطرناک عناصر کی بروقت گرفتاری سے دہشتگردی کو روکا جا سکے گا۔
انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کی مخالفت
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم نے ان قوانین کے تحت پاکستان کے ہر شہری کو پیدائشی مجرم بنا دیا ہے، کوئی بھی ادارہ کسی کو بھی گرفتارکرلیتا ہے، ثابت اسی شخص نے کرنا ہے کہ وہ بے گناہ ہے، غلط قانون کو بطورنظیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ ایسے قوانین سے متعلق ماضی بھی ہے، یہ دہشتگردی صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر میں ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے بھی انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کی مخالفت کر دی، کہا آئین کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتا، یہ قانون آئین کے آرٹیکل 10 کے خلاف ہے، سپریم کورٹ نے بھی حکم دے رکھا ہےکہ بنیادی آئین کےمنافی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ سیکشن 11 میں تبدیلی کر کے لفظ حکومت شامل کیا جا رہا ہے، اس قانون کے تحت کسی بھی فرد کو پہلے3 ماہ اور پھر 3 ماہ مزید بھی نظر بند رکھا جا سکےگا، اس طرح کے قوانین لانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔






















