سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سے بحریہ ٹاؤن کراچی کے زیر قبضہ زمین سے متعلق رپورٹس طلب کرلیں۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی عملدرآمد کیس کی سماعت کی جس کے دوران ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک ملک ریاض کے وکیل سلمان اسلم بٹ عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کی سپریم کورٹ میں جمع رقم کی تفصیلات اور سپریم کورٹ کے اکاؤنٹنٹ کو فوری طور پر طلب کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جن لوگوں کو نوٹسز جاری ہوئے تھے وہ کہاں ہیں؟ جس پر وکیل سلمان اسلم بٹ نے بتایا کہ وہ ملک ریاض کی جانب سے پیش ہوئے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان کے بیٹے اور بیوی کے وکیل کون ہیں؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ میں صرف ملک ریاض کی طرف سے نمائندگی کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے وکیل کو موکل سے رابطہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے معلوم کرلیں کیونکہ ایک ہی خاندان کے سب افراد ہیں، ایسا نہ ہو عدالت کوئی حکم جاری کرے اور بعد میں اعتراض آجائے۔
سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہر صورت عمل ہوگا، ورنہ عدالت اس کیس کے ذریعے مثال قائم کرے گی جس پر وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں ملک کا قانون بالاتر ہوگا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون سے بالاتر ہے؟، جس پر وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی نہ ہو، جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ جذباتی نہ ہوں یہ آپ کا ذاتی کیس نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ 2019 کا فیصلہ ہے، آپ توہین عدالت میں آئے نہ عملدرآمد میں، تو پھر ہم فیصلہ ختم کر کے آپ کو اصل پوزیشن پربحال کر دیتے ہیں، آپ ادائیگی نہ کرنے کے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔
وکیل نے جواب دیا کہ میں ادائیگی کے لیے تیار ہوں مگر مجھے زمین تو پوری دیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جونقشہ دکھا رہے ہیں یہ خود کا بنایا ہوا ہے، سرکارکا نقشہ دکھائیں، وکیل نے بتایا کہ میں جو آپ کو نقشہ دکھا رہا ہوں یہ ایم ڈی اے کا منظور شدہ ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ سے قانونی بات پوچھی جائے تو آپ نقشے دکھانا شروع کر دیتے ہیں، یہ بالی یا ہالی ووڈ نہیں کہ اداکاری چلے، آپ قانونی نکتے پر آ ہی نہیں رہے۔
بعدازاں،عدالت عظمٰی کی جانب سے سندھ حکومت سے بحریہ ٹاؤن کے زیر قبضہ زمین سے متعلق رپورٹس طلب کر لی گئیں۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری حکمنامے میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن اور ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی شواہد کے ساتھ رپورٹ دیں جبکہ سندھ حکومت اور ایم ڈی اے زمین کا سروے بھی کرائیں۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن کا نمائندہ بھی سروے ٹیم کے ہمراہ ہوگا، سروے میں سرکاری زمین پر قبضے کے الزمات کا بھی جائزہ لیا جائے۔
عدالت عظمیٰ نے درخواستگزار محمود اختر نقوی کو بھی سروے ٹیم کا حصہ بنا دیا اور سروے رپورٹ 23 نومبر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ وکیل مشرق بینک کے مطابق رقم بھیجنے والے کی تفصیل ڈیٹا ملنے پر ہی دی جاسکتی ہے، مشرق بینک متعلقہ معلومات ملنے پر رقم بھیجنے والے کی تفصیلات فراہم کرے،190 ملین پاؤنڈ اور بحریہ ٹاؤن سے متعلق دیگر درخواستیں بھی سنیں گے۔
بعدازاں، عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کراچی عملدرآمد کیس کی مزید سماعت 23 نومبر تک ملتوی کر دی۔