بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں دو اہم پن بجلی منصوبوں ’’سلّال اور بگلیہار‘‘ پر ذخائر کی گنجائش بڑھانے کیلئے ”ریزر وائر فلشنگ“ کا عمل شروع کر دیا، جس کے بعد پاکستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاہدے پر تناؤ مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، یہ اقدام بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے سے ہٹ کر کیا گیا پہلا عملی قدم ہے، جو 1960ء سے اب تک تین جنگوں اور متعدد جھڑپوں کے باوجود دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان قائم رہا ہے۔
گزشتہ ماہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ایک حملے کے بعد، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے، سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا تھا۔ نئی دہلی کا دعویٰ ہے کہ حملے میں پاکستان کا ہاتھ ہے، تاہم اسلام آباد نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے حصے کے پانی کو روکنے یا موڑنے کی کوئی بھی کوشش جنگی اقدام تصور کی جائے گی۔
ذرائع نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ”ریزر وائر فلشنگ“ کا عمل یکم مئی سے 3 دن جاری رہا، جس کا مقصد آبی ذخائر سے تلچھٹ کو نکال کر بجلی کی پیداوار میں بہتری لانا اور ٹربائنز کو نقصان سے بچانا ہے۔
یہ کام بھارت کی سب سے بڑی پن بجلی کمپنی ”این ایچ پی سی لمیٹڈ“ اور مقامی حکام کی نگرانی میں کیا جارہا ہے اور اس بارے میں پاکستان کو کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی، حالانکہ سندھ طاس معاہدہ اس قسم کی کارروائیوں سے روکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سلّال (690 میگاواٹ) اور بگلیہار (900 میگاواٹ) منصوبوں پر یہ صفائی کا کام ان کی تعمیر کے بعد پہلی بار کیا جارہا ہے، کیونکہ معاہدے کے تحت اس کی اجازت نہیں تھی، ان منصوبوں کی تعمیر کے دوران بھی پاکستان نے کئی تکنیکی اعتراضات اٹھائے تھے۔
چناب دریا کے کنارے آباد مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ یکم مئی سے تین دنوں تک سلّال اور بگلیہار ڈیمز سے پانی چھوڑا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذخائر کو تقریباً خالی کرکے صفائی کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق، سلّال منصوبہ اپنی پوری پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا نہیں کر پارہا تھا، کیونکہ ذخائر میں مٹی اور تلچھٹ جمع ہوچکی تھی، بگلیہار منصوبے کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ ریزر وائر فلشنگ عام طور پر نہیں کی جاتی کیونکہ اس میں کافی مقدار میں پانی ضائع ہوتا ہے اور ایسے موقع پر نیچے کے ممالک کو آگاہ کیا جانا ضروری ہوتا ہے تاکہ کسی ممکنہ سیلاب سے بچا جاسکے۔
بھارت کے وزیر آبی وسائل پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ یقینی بنائیں گے کہ سندھ دریا کا ایک قطرہ بھی پاکستان نہ پہنچے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت فوری طور پر پانی کے بہاؤ کو نہیں روک سکتا، کیونکہ معاہدہ اسے صرف بغیر ذخیرے والے پن بجلی منصوبے تعمیر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
بھارت کے سابق واٹر کمیشن چیف کشویندر ووہرا کے مطابق معاہدے کی معطلی کے بعد اب بھارت آزاد مرضی سے منصوبے آگے بڑھا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پاکستان کو دریاؤں کی روانی سے متعلق اعداد و شمار فراہم کرتا رہا ہے اور سیلاب کی پیشگی اطلاع بھی دیتا رہا ہے۔ تاہم، حالیہ معطلی کے بعد یہ تعاون بھی خطرے میں پڑگیا ہے۔
پاکستان نے معاہدے کی خلاف ورزی پر عالمی عدالت میں جانے کی دھمکی دی ہے، جبکہ دونوں ممالک نے پہلے بھی ہالینڈ کی مستقل ثالثی عدالت میں اختلافات کے حل کی کوششیں کی ہیں، جن میں کشن گنگا اور رتلے منصوبوں کے ذخیرے کی گنجائش کے امور شامل تھے۔
سفارتی ماہرین اور آبی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کا یہ اقدام خطے میں ایک نیا تنازع کھڑا کرسکتا ہے اور مستقبل میں آبی جنگ کے خدشات کو جنم دے سکتا ہے۔