سپریم کورٹ میں سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کو ٹرائل میں رولز پر عمل ہونے سے متعلق آگاہ کیا گیا۔ جواب الجواب دلائل کے دوران وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ملٹری ٹرائل میں ملزم کو دفاع کا مکمل موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
سماعت کے دوران بھارتی کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے سے متعلق قانون کا بھی تذکرہ ہوا۔ خواجہ حارث نے دلائل میں کہا ویانا کنونشن میں آرٹیکل 36 کا تعلق غیرملکی شہریوں سے ہے۔ کہا گیا کہ بھارتی جاسوس کو اپیل کا حق ملا مگر اپنے لوگوں کو نہیں، کلبھوشن کو ویانا کنونشن کے تحت قونصل رسائی دی گئی ۔ اسے اپیل کا حق دینا نہیں کہہ سکتے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ویانا کنونشن کے مطابق کلبھوشن کے معاملے میں بھارت سینڈنگ اسٹیٹ ہے۔ وہ قانون لا آف لینڈ بن چکا کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ کلبھوشن ہو یا کسی اور ملک کا شہری قونصل رسائی تو سب کیلئے ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا پشاور ہائیکورٹ میں جسٹس وقار سیٹھ نے ایک فیصلہ دیا ۔ اس پر سخت رد عمل آیا مگر بعد میں عالمی عدالت انصاف میں اسی فیصلے کو اپنےحق میں پیش کیا گیا ۔
خواجہ حارث نے بتایا ملٹری ٹرائل میں چارج فریم کرنےکا پورا پراسس ہے ملزم کو دفاع کا مکمل موقع فراہم کیا جاتا ہے ۔ ملزم کو نام دیئے جاتے ہیں کہ کون سے افسران ان کا ٹرائل کریں گے۔ ملزم کسی افسر پر اعتراض کرنے کا بھی حق رکھتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کہا آپ نے شفاف ٹرائل ہی نہیں بلکہ قانونی طریقہ کار پر بھی ہمیں مطمئن کرنا ہے ۔ فوجی عدالتوں کے ٹرائل کا سویلین عدالتوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ میرا سوال ہے کہ کیا وضو کےبغیر خشوع و خضوع سے نماز ہوسکتی ہے ؟ خواجہ حارث نے جواب دیا آپ کا سوال بہت پیچیدہ ، اس کےلیے وقت درکار ہے ۔ وزارت دفاع کے وکیل جمعرات کو بھی جواب الجواب دلائل جاری رکھیں گے۔