پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا لیکن وہ جلد ہی گرمیوں کی سخت لو میں اس وقت تبدیل ہوا جب پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر اپنے مطالبات کو تسلیم کیئے جانے تک چوتھے دورے میں بیٹھنے سے انکار کر دیا ، یہ تو دن کی روشنی کی طرح واضح ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں ایک ساتھ بیٹھ کر معاملات کو حل نہیں کرتیں ملک میں سیاسی استحکام قائم ہونا صرف دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔
مذاکرات کی ٹیبل پر آنے کی بجائے پی ٹی آئی کے بانی آرمی چیف کو خطوط لکھنے میں مصروف ہیں جبکہ یہاں یہ بات پاک فوج کے سربراہ کی جانب سے متعدد بار واضح کی جاچکی ہے کہ مذاکرات ہم سے نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں سے کیئے جائیں، پاک فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ پاکستانی سیاست ایک دائرے کے گرد مسلسل چکر کاٹ رہی ہے جہاں مذاکرات کی پیشکش ہوتی ہے ، پھر مسترد کر دی جاتی ہے ، لیکن حاصل حصول کچھ نہیں ، پی ٹی آئی کا آغاز سے ہی موقف رہاہے کہ موجودہ حالات میں مذاکرات بے سود ہیں ، ان کے نزدیک حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں بلکہ محض اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے تاکہ اپنے ووٹرز کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ وہ کسی اصولی مؤقف پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔مذاکرات کیلئے پی ٹی آئی کا مسلسل انکار اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سیاسی تقسیم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہری ہوتی چلی جارہی ہے ۔
دوسری جانب، حکومتی اتحاد کا مؤقف ہے کہ اپوزیشن جمہوری عمل کو مسترد کر رہی ہے، جبکہ کسی بھی سیاسی نظام میں مذاکرات ہی واحد راستہ ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی تنازعات ضد سے حل نہیں ہوتے اور اگر مذاکرات کے دروازے بند کیے گئے تو حالات صرف احتجاجی سیاست، ادارہ جاتی مفلوجیت اور تشدد کی طرف بڑھے گا ۔پاکستان اب ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ اپوزیشن بات چیت نہیں کرنا چاہتی، حکومت اصرار کرتی ہے کہ اس نے اپنا حصہ ڈال دیا ہے، اور عوام بیچ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ سیاسی جمود صرف حکومتی کام کو روکنے سے زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ سمت اس ملک کے لیے پائیدار نہیں ہے جو متعدد چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، جن میں معاشی عدم استحکام بھی شامل ہے، اور اس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی اور پالیسی سازی میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔
ذاتیات کو ایک طرف رکھ کر قومی مسائل کے حل اور یکجہتی کیلئے سیاسی جماعتوں کے پاس مذاکرات کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ سیاستدان اپنی ترجیحات درست کریں اور عوامی مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ پاکستان مزید کسی سیاسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔