پاکستان ایک خودمختار ملک ہے جو اپنے قدرتی وسائل، محنتی عوام اور بہترین صلاحیتوں کی بنا پر دنیا میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ تاہم، گزشتہ کچھ سالوں میں سعودی عرب سمیت مختلف خلیجی ممالک میں پاکستانیوں کے بھیک مانگنے کے واقعات نے نہ صرف قومی وقار کو نقصان پہنچایا بلکہ عالمی سطح پر ملک کی ساکھ کو بھی متاثر کیا ہے۔ کسی بھی ملک کو چلانے کیلئے ٹیکس کے علاوہ ترسیلات زر ایک بہت بڑا سہارا ہوتا ہے جو کہ بیرون ملک موجود پاکستانی کما کر ملک بھیجتے ہیں اور جب کچھ غیر ذمہ دار پاکستانی بیرون ملک جا کر قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو محنت کر کے کمانے والے پاکستانیوں کے تشخص کو پامال کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتےجس کے سد باب کیلئے منظم کارروائی اور قانون سازی ضروری ہے ۔
سعودی عرب میں بھیک مانگنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ پاکستانی شہریوں کے بارے میں ایک منفی تاثر بھی قائم کرتا ہے، یہ عمل کئی طرح کے مسائل کو جنم دیتا ہے، اس مشکل سے نمٹنے کیلئے اب حکومت نے باقاعدہ قانون سازی کا راستہ اختیار کرنے کیلئے احسن قدم اٹھا لیا ہے اور اس حوالے سے سینیٹ میں ایک بل پیش کیا گیاہے جس میں منظم بھیک مانگنے کی تعریف شامل کی گئی اور سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں ۔ سعودی عرب میں بھی گداگری کو جرم قرار دیا جا چکاہے اور اس میں ملوث افراد کو کم از کم ایک سال قید اور ایک لاکھ ریال جرمانے کی سزا ہے ۔
وزارت داخلہ کی جانب سے سینیٹ میں پیش کیے گئے بل کے متن میں کہا گیاہے کہ جو شخص منظم بھیک مانگنے کے لیے کسی کو بھرتی کرے، پناہ دے، اسے 7 سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔بل میں مننظم بھیک مانگنے کی وضاحت بھی کی گئی ہے جس سے مراد دھوکہ دہی، زبردستی، ورغلا کر بہانے سے بھیک مانگنے میں ملوث کرنا ہے جب کہ کسی عوامی مقام پر خیرات مانگنا یا وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔اس کے علاوہ، قسمت کا حال بتا کر ،کرتب دکھا کر بھیک مانگنے کو بھی اس کیٹگری میں شامل کیا گیا ہے، جب کہ کسی بہانے سے اشیا فروخت کرنا، بار بار گاڑیوں کی کھڑکیوں پر دستک دینا، زبردستی گاڑیوں کے شیشے صاف کرنا بھی منظم بھیک مانگنے کے زمرے میں آئے گی۔بل میں منظم بھیک مانگنے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ کسی نجی احاطے میں داخل ہو کر بھیک مانگنا یا خیرات وصول کرنا، کسی زخم، چوٹ، بیماری، معذوری کو دکھا کر ہمدری حاصل کرکے پیسے وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
حال ہی میں بھیک مانگنے کا ایک نیا مغربی سٹائل بھی متعارف ہوا ہے جو کہ تیزی کے ساتھ پھیلتا ہوا دکھائی دے رہاہے جس میں ایک شخص اپنے جسم پر ایک رنگ لگا کر چونک یا چوراہے پر کھڑا ہو جاتاہے اور اپنی نمائش کرتے ہوئے ایک طرح سے بھیک اکھٹی کرتا ہے ۔سینیٹ میں پیش کیئے گئے بل میں اس معاملے کو بھی شامل کیا گیاہے ۔ بل کے مطابق خود کو بطور نمائش استعمال ہونے دینا بھی منظم بھیک مانگنے کے زمرے میں آتا ہے۔
بیرو ن ملک کام کرنے والے پاکستانی ورکرز کی بڑی تعداد پہلے ہی ویزا ، کفالت سمیت کئی سخت قوانین کا سامنا کر رہی ہے۔ جب کچھ لوگ غیر قانونی بھیک مانگنے میں ملوث ہوتے ہیں، تو میزبان ملک سخت اقدامات کرتا ہے، جس کے نتیجے میں دیگر محنتی پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی محدود ہو جاتے ہیں۔پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے بیرونی سرمایہ کاری ضروری ہے، لیکن اگر ملک کی شناخت ایسے عناصر کی وجہ سے متاثر ہو، تو سرمایہ کار بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹس میں شمار ہوتا ہے۔ جب پاکستانی شہری غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں، تو بیرون ملک حکام مزید سخت قوانین نافذ کرتے ہیں، جس سے عام پاکستانیوں کے ویزے اور سفری سہولیات متاثر ہوتی ہیں۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں کے لیے بیداری مہم شروع کرے، تاکہ انہیں بھیک مانگنے کے قانونی اور سماجی اثرات سے آگاہ کیا جا سکے۔ بالخصوص سعودی حکام کے ساتھ مل کر ایک مانیٹرنگ سسٹم قائم کیا جائے، جس کے ذریعے ایسے افراد کی نشاندہی کی جا سکے جو غیر قانونی بھیک مانگنے میں ملوث ہیں، اور انہیں وطن واپس لا کر بحالی مراکز میں شامل کیا جائے۔
اس کے علاوہ پاکستان میں ہنر مندی کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ لوگ سعودی عرب اور دیگر ممالک میں جا کر خود کفیل بن سکیں، بجائے اس کے کہ وہ غیر قانونی ذرائع اختیار کریں۔ اگر کوئی واقعی مالی مشکلات کا شکار ہے، تو ان کے لیے سماجی بہبود کے منصوبے ترتیب دیے جائیں، تاکہ وہ بھیک مانگنے کے بجائے کسی باعزت کام کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔
پاکستان ایک عظیم ملک ہے جس کے شہری دنیا کے ہر کونے میں اپنی محنت اور قابلیت کا لوہا منوا رہے ہیں۔ چند افراد کی وجہ سے پوری قوم کی شناخت کو نقصان پہنچانا نہایت افسوسناک ہے۔ اگر حکومت، عوام اور سماجی تنظیمیں مل کر کام کریں تو نہ صرف پاکستانیوں کی خودداری بحال ہو سکتی ہے، بلکہ ملک کی عالمی ساکھ کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔