ایوان بالا اور زیریں سے منظوری کے بعد صدر مملکت آصف زرداری نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیئے ہیں ، جس کے بعد یہ اب قانون بن چکا ہے اورفی الفور نافذ العمل ہے ۔متنازع قانون پر اپوزیشن جماعتیں اور تمام صحافتیں تنظیمیں ملک بھر میں سراپا احتجاج ہیں، اسے کالا قانون قرار دیا جارہا ہے، اس بل کے مطابق جو شخص ’فیک نیوز‘ پھیلانے میں ملوث پایا گیا اسے تین سال قید یا 20 لاکھ تک جرمانے یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی, سچ اور جھوٹ کا تعین کرنے کا اختیار بھی حکومت کے پاس ہو گا جو تحقیقاتی صحافت اور آزادی اظہار رائے کو بری طرح متاثر کرے گا ۔
اس بِل کو ’دی پریوینشن آف الیکٹرنک کرائمز (ترمیمی) بل 2025‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے ایک نئی تحقیقاتی ایجنسی تشکیل دی جائے گی ۔نئی قائم ہونے والی اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن یا رجسٹریشن کی منسوخی اور معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو بھی یقینی بنائے گی۔اس بِل کے ذریعے پیکا ایکٹ میں ایک نئی شق، سیکشن 26 (اے) کو شامل کیا گیا ہے جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سزا سے متعلق ہے۔ جھوٹی خبر پھیلانے والے شخص کو تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
صحافی تنظیموں کی جوائنٹ ا یکشن کمیٹی نے متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیاہے جبکہ اس کے خلاف احتجاجی تحریک بھی شروع کر دی گئی ہے ، کراچی سے خیبر ، کوئٹہ سے لاہور سمیت وفاقی دارالحکومت میں صحافی برادری سڑکوں پر آ گئی ہے ۔پی ایف یو جے، پی بی اے،سی پی ا ین ا ی و دیگر صحافی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اپنے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ ’اس بل کا محور صرف سوشل میڈیا نہیں بلکہ اس کا ہدف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈ یا کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بھی ہیں اور اس کا مقصد اختلاف رائے کو جرم بنا دینا ہے۔‘
سینیٹ اجلاس میں متنازع پیکا ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن ارکان طیش میں آگئے، احتجاج کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، صحافیوں نے بھی پریس گیلری سے واک آؤٹ کر دیا۔وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بل کا تعلق اخبار یا ٹی وی سے نہیں، صرف سوشل میڈیا کو ڈیل کرے گا، صحافیوں کا اس بل سے کوئی معاملہ نہیں، یہ بل قرآنی صحیفہ نہیں، اس میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ شبلی فراز نے تقریباً اس بل کو سپورٹ کیا، اس سے پہلے قانون کو انہوں نے لولا لنگڑا کہا تھا۔
پاکستان میں پیکا ایکٹ (Prevention of Electronic Crimes Act) کو 2016 میں پاس کیا گیا تھا، جس کا مقصد الیکٹرانک جرائم کی روک تھام اور انٹرنیٹ پر سیکیورٹی کو بہتر بنانا تھا۔ اس ایکٹ میں کئی ترامیم بھی ہوئی ہیں، جن میں سے ایک حالیہ ترمیم 2025 میں ہوئی ہے۔عمران خا ن کے دور میں کی گئی ترامیم میں جعلی خبریں پھیلانے والوں کے لیے سزا کا اضافہ کیا گیا، جس میں پانچ سال قید یا دس لاکھ روپے جرمانہ، یا دونوں شامل تھا۔ نفرت انگیز مواد کے خلاف سخت اقدامات، جس میں تین سال قید یا پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں شامل تھے۔ حکومتی اداروں یا شخصیات کے خلاف توہین آمیز مواد پھیلانے پر بھی سخت سزائیں تجویز کی گئیں تھیں ۔
پیکا ایکٹ میں کی گئی حالیہ ترمیم کا مطلب ہے کہ اب گروپ اور حکومت دونوں اس قانون کو لوگوں کیخلاف قانونی کارروائی کیلئے استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ اس ترمیم میں سب سے پہلے شکایت کرنے والے کی تعریف کو وسعت دی گئی ہے جس کے مطابق نہ صرف براہ راست متاثر ہونے والا شخص بلکہ جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ غلط ہواہے وہ بھی اس میں شامل ہو گا۔ اس میں اداروں کو بھی شکایت کنندہ کی تعریف میں شامل کر لیا گیاہے ۔اظہار رائے کیلئے یہ سزا انتہائی سخت اور تشویشناک ہے کیونکہ اس کی تعریف مبہم ہے اور آسانی کے ساتھ اس کا غلط استعمال بھی کیا جا سکتا ہے ۔
اس ترمیم سے حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو گیاہے کہ وہ اپنی مرضی سے یہ تعین کر سکتی ہے کہ کون سچ بول رہاہے اور کون جھوٹ بول رہاہے اور یہ آزادی اظہار رائے کے بین الاقوامی معاہدوں کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔ اس ترمیم کے ذریعے حکومت سوشل میڈیا پر ہر چیز کو کنٹرول کرے گی یعنی حکومت خود ہی جج ہو گی اور فیصلہ ساز بھی ۔ اگر سوچا اور سمجھا جائے تو ایک طرح سے آزادی اظہار رائے کا گلا گھوٹنے کیلئے یہ آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے تحقیقاتی صحافت بری طرح متاثر ہو گی ۔اس ترمیم سے چار نئے اداروں کا قیام عمل میں آئے گا جن میں سے ایک سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔ یہ نیا ادارہ ممکنہ طور پر انٹرنیٹ کے مواد کو کنٹرول کرنے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی ذمہ داری نبھائے گی اور اسے مبینہ طور پر بغیر کسی سوال کے حکومتی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ جبکہ پی ٹی اے کا مقصد خود مختار ہونا تھا اور وہ یہ انتخاب کر سکتا تھا کہ آیا حکومتی احکامات پر عمل کرنا ہے یا نہیں لیکن نئی اتھارٹی صرف حکومتی احکامات پر عمل کرے گی۔