رحم کے تحت موت یا ’ یا یوتھنزیا‘ کے حامیوں کا ماننا ہے کہ یہ ایک ہمدردانہ عمل ہے، جو لوگوں کو ناقابل برداشت درد یا لاعلاج بیماریوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے کرب سے بچاتا ہے۔ ان کایقین ہے کہ ایسی صورتوں میں موت، طویل اذیت کے مقابلے میں بہتر ہے۔ جبکہ اس کی مخالفت کرنے والوں کا موقف ہے کہ زندگی مقدس ہے اور کسی بھی حالت میں اسے جان بوجھ کر ختم نہیں کرنا چاہیے۔
لیکن ان صورتوں کا کیا جہاں موت براہ راست عمل کے نتیجے میں نہیں بلکہ عدم عمل کے نتیجے میں ہوتی ہے؟ مثال کے طور پر، ایک شخص جو پیاس کی وجہ سے مر رہا ہو، اگر آس پاس کے لوگ اسے پانی مہیا نہ کریں اور اس کے نتیجے میں اس کی موت ہو جائے، تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ زیادہ تر لوگ اس بات سے متفق ہوں گے کہ ایسی صورت میں پانی نہ دینا ناقابل معافی عمل ہے۔
اب، اس پیاسے شخص کی جگہ کسی ایسے شخص کو رکھیں جو جان لیوا بیماری سے لڑ رہا ہو۔ تصور کریں اگر زندگی بچانے والی دوائی، جو پہلے عطیہ دہندگان یا انسان دوست کوششوں سے مہیا کی جا رہی تھی، اچانک روک دی جائے۔ نتیجہ واضح ہے: ضروری علاج کے بغیر، مریض اپنی بیماری کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
یہ ایک پریشان کن سوال کو جنم دیتا ہے: کیا مدد روکنے کا فیصلہ، یہ جانتے ہوئے کہ اس سے موت واقع ہوگی، قتل کے مترادف ہے؟ اور اگر نہیں، تو کیوں نہیں؟ یہ اخلاقی الجھنیں انفرادی معاملات سے لے کر عالمی پالیسیوں تک وسیع اثر رکھتی ہیں۔جب ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار صدارت سنبھالی، تو انہوں نے ’پیرس معاہدے ‘ جو ایک بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدہ ہے ، سے دستبرداری کافیصلہ کیا ۔ اس کے بعد، انہوں نے عالمی ادارہ صحت (WHO) سے بھی الگ ہونے کے اقدامات کیے۔
28 جنوری کو اطلاعات آئیں کہ امریکی حکومت نے تقریباً امداد کے تمام پروگرام روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ اس فیصلے کا سرکاری سطح پر فی الحال اعلان نہیں کیا گیا، لیکن اطلاعات ہیں کہ یہ پہلے ہی امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) کے تحت چلنے والے پروگراموں کو متاثر کرنا شروع کر چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایچ آئی وی، ملیریا اور تپ دق جیسی بیماریوں کے لیے اہم دوائیوں کی فراہمی ان ترقی پذیر ممالک تک نہیں پہنچے گی جب تک کہ حالات بہتر نہ ہوں۔
ایسے فیصلے کرنے سے پہلے، وائٹ ہاؤس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کسی قوم کی عظمت اس کی طاقت سے نہیں، بلکہ اس کی ذمہ داری قبول کرنے اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کی خواہش سے ماپی جاتی ہے۔
ایچ آئی وی اور تپ دق جیسی بیماریوں کے علاج میں رکاوٹ یا انکار، دوائیوں کے خلاف مدافعت کو جنم دے سکتا ہے، جس سے ان بیماریوں کی مزید خطرناک اقسام پیدا ہوں گی۔ اس کا انسانی نقصان ناقابل تصور ہے، لیکن اقتصادی اثرات بھی تباہ کن ہوں گے، خاص طور پر ان ترقی پذیر ممالک کے لیے جو اپنی صحت کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے امریکی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔
"امریکہ فرسٹ" پالیسی کے تحت یہ مسئلہ شاید کسی اور کا ہوگا۔ لیکن کیا وہ لوگ جو اقتدار میں ہیں واقعی یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ان اثرات سے محفوظ رہیں گے؟ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ COVID-19 وبا کے دوران امریکہ میں کیا ہوا تھا۔یہ فیصلہ صرف صحت عامہ کو متاثر نہیں کرے گا بلکہ امریکہ پر اعتماد کو بھی ختم کرے گا، جو طویل عرصے سے صحت کے عالمی اقدامات میں قائد کے طور پر خود کو پیش کرتا رہا ہے۔اس کے علاوہ، اس فیصلے کے نتیجے میں غیر قانونی ہجرت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ غریب ممالک میں صحت کے بحران اکثر بڑے سماجی و اقتصادی مسائل جیسے غربت، ہجرت اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دیتے ہیں۔
یہ سوالات نہ صرف غور و فکر بلکہ فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ خواہ یہ لاپروائی ہو یا پالیسی کے فیصلے، روکنے کے قابل اموات کو ہونے دینا ہماری انسانیت کے بنیادی اصولوں کو چیلنج کرتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کو سمجھنا ہوگا کہ عظمت طاقت سے نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت سے آتی ہے۔