پاکستان میں حالیہ دنوں میں بینک صارفین کی مرضی کے بغیر اُن کے اکاؤنٹ سے رقم استعال یا منتقل ہونے کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ متاثر ہونے والے کچھ صارفین کو رقم واپس مل گئی ہے تاہم کئی صارفین ایسے ہیں جن کو ان کے اکاؤنٹ سے منتقل شدہ رقم ابھی تک نہیں ملی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق صارفین کی جانب سے بینک کے ڈیٹا بیس یا سکیورٹی نظام میں خرابی کا شُبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جبکہ بینکوں نے صارفین کی جانب سے مشکوک آن لائن ویب سائٹس پر اپنے کارڈز کے استعمال کو رقم کی کٹوتی کی ممکنہ وجہ قرار دیا ہے۔
ماہرین کے خیال میں صارفین کے بینک اکاؤنٹس سے اچانک رقوم کی کٹوتی بینک کے ڈیٹا بیس میں خرابی اور صارف کی جانب سے کارڈز کے غلط استعمال دونوں ہی صورتوں میں ممکن ہے۔
سٹیٹ بینک اور نجی بینکوں نے بینکوں کے ڈیٹابیس میں کسی قسم کی خرابی کی تردید کرتے ہوئے اِسے صارفین کی طرف سے ممکنہ غلطی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
ترجمان کے مطابق اگر صارفین اپنے کارڈز کا استعمال کرتے ہوئے حفاظتی تدابیر کو ملحوظ نہیں رکھیں گے تو وہ کسی مالی فراڈ کا شکار ہوسکتے ہیں۔
سائبر سکیورٹی ماہرین کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ بینکنگ کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے زیادہ آگاہی نہ ہونے کے سبب صارف کی جانب سے اپنے ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈز کا غلط استعمال کر لیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اُنہیں مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماہرین کے مطابق غیر مصدقہ ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر آنے والے اشتہارات بعض اوقات اپنے پاس محفوظ صارف کے ڈیٹا کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر لیتے ہیں۔ ’اس لیے جتنا ممکن ہو سکے صارف ایسی ویب سائٹس یا سوشل میڈیا ایپس پر کارڈز کا استعمال نہ کریں اور صرف مستند اور بڑی ویب سائٹس کو ای شاپنگ یا دیگر مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
پبلک وائی کے استعمال کے دوران انٹرنیٹ بینکنگ سے بھی صارف کے ڈیٹا کی چوری کا خدشہ ہے۔ اُن کے خیال میں پبلک وائی چونکہ ہر خاص و عام کے استعمال میں رہتا ہے اس لیے اس کے سبب سائبر کرائم میں ملوث افراد عام شہریوں کے ذاتی ڈیٹا تک بھی رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔