دینی مدارس کے رجسٹریشن کا تنازع شدت اختیار کرگیا۔
جمعیت علما اسلام نے مدارس کی وزارت تعلیم کے تحت رجسٹریشن سے اختلاف کرتے ہوئے نیا بل پیش کیا جو دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے باوجود صدر مملکت کے اعتراض کے باعث قانون نہ بن سکا۔ وفاق المدارس والجامعات دینیہ پاکستان کا مطالبہ ہے کہ دوہزار انیس کے معاہدے پر عملدرآمد جاری رکھا جائے۔
پاکستان میں مدارس کی رجسٹریشن برطانوی دور کے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت ہوتی تھی لیکن اس قانون کے تحت مدارس کی رجسٹریشن لازمی نہیں صرف اختیاری تھی۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2005 میں سوسائٹی ایکٹ میں 21 ویں شق کا اضافہ کرتے ہوئے متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس مدارس کی رجسٹریشن کروانا لازم قرار دیا گیا۔ نصاب میں فرقہ واریت، عسکریت پسندی اور شدت پسندی کی تعلیم ممنوع قرار دی گئی۔ مدارس کی تعلیمی اور معاشی سرگرمیوں کی سالانہ آڈٹ رپورٹ بھی جمع کرانا لازم تھا۔
ایف اے ٹی ایف کے اعتراضات کے بعد 2019 میں پی ٹی آئی حکومت اور علماء کے درمیان مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق نیا معاہدہ ہوا۔ معاہدے کے مطابق مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹی ایکٹ کے بجائے وزارتِ تعلیم کے زیر انتظام کردی گئی۔18 ہزار 600 مدارس اسی معاہدے کے تحت رجسٹرڈ ہوئے۔ مگریہ سب کچھ بغیر کسی قانون صرف ایک معاہدے کی روسے ہوا۔
جمعیت علما اسلام نے مدارس کی رجسٹریشن کو قانونی حیثیت دینے کے لیے26 ویں ترمیم کی منظوری کے ساتھ ہی ایک بل پیش کیا۔ بل میں مدرسوں کی رجسٹریشن سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت بحال کرنے کی شق شامل تھا مگر صدر مملکت نے بل پر اعتراض لگا دیا۔
جے یو آئی کا کہنا ہے کہ وزارت تعلیم کے ماتحت مخصوص ادارے اور شخص کے نیچے لانے سے مدارس کی آزادی متاثرہوگی۔ وزارت تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں میں بھی رجسٹریشن کرانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ریاستی ادارے پانچ سال سے کوائف مانگ رہے ہیں جنھیں کسی نے نہیں روکا۔
جے یو آئی کامران مرتضٰی کا کہنا ہے کہ بل دونوں ایوانوں سے پاس ہوکر صدر کے پاس گیا، ہم اس قانون کے مطابق رجسٹریشن چاہتے ہیں اور اداروں کی آڈٹ بھی چاہتے ہیں مگر لگتا ہے کہ حکومت ایسا نہیں چاہتی محکمہ تعلیم کے زیر انتظام اداروں کو حکومت ٹھیکہ پر دی رہی ہے مگر ہمیں ایک مخصوص ادارے اور فرد کے زیر انتظام لایا جارہا ہے۔
وفاق المدارس کے جنرل سیکرٹری حنیف جالندھری کے مطابق حکومت کی جانب سے مدارس کے بینک اکاؤنٹس کوبند کرنا اور نیا اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے چیریٹی ایکٹ کے تحت الگ سے رجسٹریشن جیسی پیچیدگیاں 2019 کے معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔
دوسری جانب صدر وفاق المدارس طاہر اشرفی کا موقف اس کے برعکس ہے۔وہ کہتے ہیں سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن کا پرانا نظام زیادہ پیچیدہ تھا۔ وزارت تعلیم سے منسلک ہونا تمام مدارس کی خواہش ہے۔
جے یو آئی اور اُس کے ہم خیال مدارس کا موقف ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت تعلیم چونکہ صوبائی معاملہ ہے تو اس کی وفاقی وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن سمجھ سے بالاتر ہے۔ 2019 کے معاہدے کے بعد اس حوالے سے صوبوں میں قانون سازی بھی ہونا تھی جو تاحال نہیں کی گئی۔