وفاقی حکومت کے پنشن اخراجات ایک ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگئے۔
موقر اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنشن کی شدت اس کی شرح نمو جتنی حیران کن ہے، جو آمدنی میں اضافے سے کہیں زیادہ ہے، جس کی وجہ سے اصلاحات کے نفاذ پر غور جاری ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ حکومت بیوروکریسی کو چلانے کی لاگت سے زیادہ پنشن پر خرچ کر رہی ہے۔
ایک کے بعد ایک آنے والی حکومتوں نے پنشن بل میں کٹوتی کے لیے اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں تازہ ترین تجویز ریٹائرمنٹ کی عمر کو 60 سے کم کرکے 55 سال کرنے کی ہے۔
گزشتہ ہفتے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ ایک کثیر الجہتی قرض دینے والے ادارے نے حکومت کو وسیع تر پنشن اصلاحات کے حصے کے طور پر اپنے ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے سویلین ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرکے 55 سال کرنا ایک برا خیال ہے، اگر اس کا مقصد پنشن کی بڑھتی ہوئی ادائیگی کو کم کرنا اور اس کی تیز رفتار ترقی کو سست کرنا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ سب سے پہلے، اس اقدام سے پیشگی اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوگا، جو حکومت کو اس وقت ادا کرنا ہوگا جب کوئی ملازم ریٹائرمنٹ پر پہنچ جاتا ہے۔ موجودہ پنشن نظام ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی پنشن کا 35 فیصد تک ایک ساتھ ادائیگی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے، اس اقدام کے نتیجے میں ہونے والی واحد بچت یہ ہوگی کہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے کی صورت میں پنشن کا حساب لگانے کے لیے استعمال ہونے والی آخری تنخواہ کم ہوگی اور طویل مدتی فوائد نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔
حسن خاور نے بتایا کہ ملازمین 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو رہے ہیں، اس لیے حکومت کو اضافی 5 سال کے لیے پنشن ادا کرنا پڑے گی، اس کے علاوہ نعم البدل کی شکل میں پیشگی پنشن کی ادائیگیوں میں نمایاں اضافہ کیا جائے گا۔ ریٹائرمنٹ کی کم عمر کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران وفاقی حکومت کے پنشن اخراجات میں تقریباً 4.4 گنا اضافہ ہوا ہے، اس کے برعکس سول حکومت کے آپریشنل اخراجات میں صرف 2.7 گنا اضافہ ہوا، مالی سال 22-2021 پنشن میں اضافے کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس سال پنشن کی لاگت پہلی بار پوری سول حکومت کو چلانے کے اخراجات سے 10 ارب روپے زیادہ رہی۔
اگلے سال یہ فرق بڑھ کر 56 ارب روپے تک پہنچ گیا اور توقع ہے کہ یہ فرق بڑھتا رہے گا۔ اسی طرح صوبائی حکومتوں اور سرکاری اداروں کو بھی اسی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس سال چاروں صوبوں کے لیے مجموعی پنشن اخراجات 850 ارب روپے سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔
پاکستان ریلویز پہلے ہی اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ پنشن کی ادائیگی کے لیے مختص کر رہا ہے، جو اکثر موجودہ ملازمین کی تنخواہوں کی مجموعی لاگت سے زیادہ ہوتا ہے۔
پاکستان پوسٹ کے بجٹ کا تقریباً ایک تہائی حصہ اب پنشن کی ادائیگی وں کے لیے مختص ہے، جو حکومت کے تمام سطحوں میں ایک منظم مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔
ریٹائرمنٹ کی کم عمر کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں بچت ہوگی اور نوجوان افراد کے لیے سرکاری شعبے کی ملازمتیں کھل سکیں گی۔ پاکستان جیسی مارکیٹ میں جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد اور نوجوان آبادی میں بے روزگاری کی بلند سطح ہے، یہ زیادہ ملازمتوں کو یقینی بنائے گا اور افرادی قوت کی ہموار منتقلی کو فروغ دے گا۔
اطلاعات کے مطابق، حکومت تمام محکموں میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو مرحلہ وار کم کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ علیحدگی کے اخراجات میں ابتدائی اضافے کا انتظام کیا جا سکے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پبلک سیکٹر کارپوریشنز، ریگولیٹری اتھارٹیز اور پروفیشنل کونسلز کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اسی طرح کی کٹوتی کریں، متعلقہ ادارے وفاقی وسائل پر انحصار کیے بغیر ان اصلاحات کی مالی لاگت کا انتظام کریں گے۔
گزشتہ چند سالوں میں وفاقی حکومت نے کئی پنشن اصلاحات نافذ کی ہیں، جن میں سب سے قابل ذکر رواں مالی سال سے نئے سول سرکاری ملازمین اور اگلے مالی سال سے نئی فوجی بھرتیوں کے لیے کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق وفاقی ملازمین اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد حصہ ڈالیں گے جبکہ حکومت فنڈ میں 20 فیصد حصہ ڈالے گی۔
حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی پیرامیٹرک اصلاحات میں پنشن کا حساب لگانے کا نظر ثانی شدہ فارمولا، قبل از وقت رضاکارانہ ریٹائرمنٹ پر جرمانے، متعدد پنشنوں کا خاتمہ، فیملی پنشن کے نظام میں تبدیلی اور مستقبل میں اضافے کے طریقہ کار وغیرہ شامل ہیں۔