مقبوضہ کشمیر میں کئی دہائیوں سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں اور کشمیریوں کے مصائب کی داستان سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔
بھارت نے اکتوبر 1947 کو کشمیری عوام کی مرضی کے برعکس اور آزادی ایکٹ کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں و کشمیر پر زبردستی قبضہ کر لیا جس کے بعد کشمیری عوام کے حقوق پر غاصبانہ قبضے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جایا گیا۔
اقوام متحدہ اب تک مسئلہ کشمیر پر 5 قراردادیں منظور کر چکی ہے تاہم، 2019 سے مقبوضہ کشمیر میں اب تک انٹرنیٹ کی طویل ترین بندش جاری ہے اور اقوام متحدہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پر اب تک 5 قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں مگر ایک پر بھی عملدرآمد نہ ہو سکا۔
5 اگست 2019 کو مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کرتے ہوئے کشمیری عوام کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔
کشمیری عوام کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے پیچھے حکمران جماعت بی جے پی کا ہندوؤں کی آبادکاری کا مقصد کارفرما تھا اور آرٹیکل 370 کی منسوخی سے معیشت اور روزگار منفی اثرات مرتب ہوئے جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں بے روزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
الطاف حسین وانی کے مطابق 5 سال تک بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے کیس کو نہیں لیا۔
میر واعظ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں نہ کوئی جمہوریت ہے نہ ہی قانون کی حکمرانی ہے اور جموں کشمیر میں بھارتی فوج عام عوام سے لڑنے کے لئے تعینات ہے۔
مشعال ملک کا کہنا تھا کہبھارت کشمیریوں کے جذبہ حریت کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے، ہمیں اقوام متحدہ سے فوری قرارداد پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آبادی کی تبدیلی کو روک کر نئی مردم شماری کروائی جائے۔
دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے عوام کے عزم اور استقلال نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ علاقے پر بھارتی تسلط کو مسترد کرتے ہیں۔