چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہا شکر ہےمیری اہلیہ موجود ہیں میں انہیں بتاتا کسی نےمیری تعریف کی تو انہیں یقین نہ آتا،میری اہلیہ اوراس پروفیشن دونوں سےوابستگی 42 سال کی ہے۔
فل کورٹ ریفرنس سےخطاب کرتےہوئےچیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ مجھےکسی سےسیکھنے کو نہیں ملا،وکیلوں نےمجھےبہت سکھایا،بلوچستان میں ایک غیرفعال عدالت عالیہ کاکام شروع ہوا، بلوچستان میں بہت ساری چیزیں کیں۔
آج آئین وہ قانون کی بات نہیں کروں گا،آج وہ باتیں بتاوں گاجوشاید آپ کو پتہ نہ ہوں،میں سولہ سال کا تھاجب والددنیا سے چلےگئے،میرےوالد بلوچستان کےپہلےبیرسٹر تھے،میری والدہ نےمجھے نصیحت دی ڈگری کرلوپھر جو مرضی کرلینا، تعلیم کے فوراً بعد میری شادی بھی ہوگئی، پیشہ ورانہ اور شادی شدہ زندگی کو 42 سال ہوگئے۔
چیف جسٹس بلوچستان بننے کے بعد زندگی بدل گئی،بلوچستان میں جوکام کیےان کا لوگوں کو معلوم ہے،بلوچستان میں جو کیا اہلیہ کا کردار تھا لیکن اہلیہ نے کہا نام نہیں لایا جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی عیسیٰ کے لیےالوداعی فل کورٹ ریفرنس سےخطاب کرتے ہوئےاٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نےکہا ہےکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے خود کو بطور قابل وکیل منوایا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےبلوچستان بارایسوسی ایشن کی بھی نمائندگی کی۔
انہوں نےکہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے بلوچستان میں تعلیمی نظام کی روانی یقینی بنائی، انہوں نے بلوچستان میں جنگلی حیات کو بچانے کے لیے کردار اداکیا۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یقینی بنایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز اپنی حدود میں کام کریں، سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک،جسٹس ملک شہزاد،جسٹس اطہرمن اللہ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔
فل کورٹ ریفرنس میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی،نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت سپریم کورٹ کےدیگر ججزشریک ہوئے،اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے وکلاء، عدالتی عملہ اور صحافی شریک ہوئے۔