سپریم کورٹ نے ڈیمز فنڈ کے صحیح استعمال کیلئے واپڈا اور آڈیٹر جنرل سے قابل عمل تجاویز طلب کر لیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ڈیمز فنڈ میں کوئی خُردبُرد نہیں ہوئی ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف اٹھایا ہے عدالتی فیصلوں کا نہیں۔
چیف جسٹس ڈیمزفنڈ اکاؤنٹ میں موجود 23 ارب روپے کا اصل حقدار کون ؟ کیا سود لینے کیلئے سرکاری رقم نجی بینکوں میں رکھی جا سکتی ہے ؟ سپریم کورٹ کس دائرہ اختیار کے تحت ڈیمز کی تعمیر سے متعلق پیشرفت رپورٹ مانگتی رہی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت کے دوران متعدد سوالات اٹھا دیئے ۔
ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نے عدالت کو بتایا ڈیمز فنڈز اکاؤنٹ سپریم کورٹ کے حکمنامے کے تحت کھولا گیا ۔ رجسٹرار سپریم کورٹ اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ ڈیمز فنڈز کی مکمل تحقیقات کی اس میں کوئی بے قاعدگی نہیں ہوئی۔ ڈیمزفنڈز کی رقم سپریم کورٹ اپنے پاس نہیں رکھ سکتی بلکہ یہ واپڈا کو دی جائے۔
چیف جسٹس نے کہا آئین و قانون کے بجائے عدالتی فیصلوں کو فوقیت نہیں دینی چاہیے۔ جب سپریم کورٹ میں عجیب وغریب چیزیں ہو رہی ہوتی ہیں اس وقت کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ اسٹیٹ بینک کے لیگل ایڈوائزر نےبتایا ڈیمز فنڈ کی اصل رقم 11 ارب جبکہ مارک اپ 12 ارب روپےسےزائد ہے۔ مارک اپ حکومت ہی ادا کرتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا حکومت اپنے آپ کو ہی کیسےاور کیوں مارک اپ دے رہی ہے؟ یہ تو آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے کہ 11 ارب روپے اب 23 ارب بن گئے ہیں ۔ پاکستان میں بہت سےکام آئین اور قانون کے بغیر ہی ہو جاتے ہیں ۔ کیا ڈیمز فنڈ کی رقم حکومت کو دی جا سکتی ہے ؟ سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید نے رقم حکومت کو دینے کی مخالفت کی ۔ تو چیف جسٹس نے فریقین سے مسئلے کا قابل عمل حل طلب کرتے ہوئے سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی۔