سپریم کورٹ نے نجی ریسٹورنٹ کے مالک کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔
عدالت عظمیٰ نے غیرقانونی تعمیرات گرانے کیخلاف حکم امتناع دینے والے سول جج کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو ارسال کرتے ہوئے کہا کہ دیکھا جائے کہ کیا کوئی ایکشن لینے کی ضرورت ہے ؟۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کیا سوشل میڈیا اداروں اور ججز کو گالیاں دینے کیلئے ہے ؟ ، ہمارا حکم غلط ہے تو اس پر بے شک اٹیک کریں لیکن یہ اداروں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں ، کیا اب پارلیمنٹ،عدلیہ اور میڈیا میں گینگسٹرازم سے فیصلے ہوں گے ؟۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کمال ہے سول جج سپریم کورٹ کے حکم پرعملدرآمد روک رہے ہیں، اس قسم کے ججز کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے، سول جج کو کیسے معلوم ہوا کہ درخواستگزار درجہ اول کا ٹھیکیدار ہے؟ جج کو پہلے دیکھنا چاہئےکہ دعوے پر ریلیف بنتا بھی ہے یا نہیں ؟، ہم نے یکم اکتوبر کو رپورٹ طلب کی اور دو اکتوبر کو دعویٰ واپس ہوگیا ۔
قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے تحت ایگزیکٹو اورعدلیہ سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے پابند ہیں ، بظاہر حکم امتناع عدالتی احکامات کی نفی کرنے کیلئے جاری کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا عدالت کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا گیا ، کیا سوشل میڈیا اداروں اور ججز کو گالیاں دینے کیلئے ہیں ؟، کہا گیا ریسٹورنٹ خالی کرانے سے ملازم بے روزگار ہو گئے۔ پھر تو جنگل لکڑیاں کاٹنے والوں کو دے دیں تاکہ ان کا کاروبار چلے ، ہمارا حکم غلط ہے تو اس پر بے شک اٹیک کریں لیکن یہ اداروں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں ۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابات کا فیصلہ 13 دن میں دیا ، اس پر کسی نے گالی دی نہ ٹائمنگ کا سوال اٹھایا ، سوشل میڈیا لائیکس اور ڈسلائیکس کیلئے اداروں سے کھیلا جا رہا ہے ، بڑے بڑے تھمب نیل بنائے جاتے ہیں ۔
عدالت نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملے پر سی ڈی اے اور چیف کمشنر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سوسائٹی کی ملکیتی دستاویز اور اجازت کی تفصیلات بھی منگوا لیں جبکہ کیس کی سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کر دی گئی ۔