سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے تشریح نظر ثانی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پہلے بتائیں کل کے بعد کیا ہوا؟ جسٹس منیب اختر کو درخواست کی گئی کہ بینچ میں آئیں، جسٹس منیب نے دوبارہ خط لکھ دیاجس میں اپناپرانا مؤقف دہرایا ہے۔
چیف جسٹس کہا کہ جسٹس منیب اختر کے خط کے بعد میں نے کمیٹی کو جسٹس منصور علی شاہ کو شامل کرنے کی تجویز دی، جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی اور بینچ دونوں میں شمولیت سے انکار کیا، اس کے بعد ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچا تھا، دوسرے بینچز کو ڈسٹرب نہ کرتے ہوئے جسٹس نعیم افغان کو شامل کیا ہے، اب سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہوتا۔
"کبھی تو جمہوریت پر بھی چل کر دیکھیں"
سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا بینچ پر اعتراض کیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ علی ظفر آپ بیٹھ جائیں آپ کو مناسب وقت پر سنا جائے گا، بیرسٹر علی ظفر آپ کو پہلے دلائل دینے کا حق نہیں ہے، پہلے جس نے نظر ثانی درخواست دی ہے اس کو دلائل دینے کا حق ہے، روسٹرم پر آپ کی ہی بار کے منتخب صدر کھڑے ہیں، کبھی تو جمہوریت پر بھی چل کر دیکھیں۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے دلائل کا آغاز کر دیا، شہزاد شوکت نے کیس کا پس منظر بیان کر دیا، کہا اس کیس میں صدارتی ریفرنس بھی تھا اور 184/3 کی درخواستیں بھی تھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس پر رائے اور 184 تین دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں، دونوں کو یکجا کر کے فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے، صدارتی ریفرنس پر صرف رائے دی جا سکتی ہے فیصلہ نہیں۔
واضح رہے کہ واضح رہے کہ گزشتہ روز کیس کے سماعت کے دوران آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے سماعت کیں جبکہ لارجر بینج کے رکن جسٹس منیب اختر نے موجودہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے بنائے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔
جسٹس منیب اختر کے خط کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس پروسیجر کمیٹی نے آج صبح جسٹس نعیم اختر افغان کو آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کے سماعت کرنے والے بینچ میں شامل کرلیا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس صبح 9 بجے سپریم کورٹ میں ہوا، جسٹس نعیم اخترافغان کی شمولیت سے5رکنی لارجر بینچ مکمل ہوگیا۔
آج کی سماعت کا حکمنامہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوا دیا، حکمنامے کے مطابق نظرثانی درخواست 3دن کی تاخیر سے دائر ہوئی،علی ظفر نے اعتراض اٹھایا تاہم درخواست گزار کے مطابق تفصیلی فیصلہ نہ آنے کی وجہ سے نظرثانی میں تاخیر ہوئی، رجسڑار آفس معلوم کرے کہ تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوا تھا؟
حکم نامے کے مطابق جسٹس منیب اختر نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کی، دوبارہ درخواست کرنے پر جسٹس منیب نے دوسرا خط لکھ دیا، رجسڑار سپریم کورٹ یہ معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لائیں، ججز کمیٹی کا دوبارہ اجلاس بلا کر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایا، دوران سماعت کئی سوالات سامنے آئے، سوالات پر فریقین کو معاونت کی ہدایت کی جاتی ہے، فریقین برطانیہ،امریکا سمیت دیگر ممالک میں انحراف کی حیثیت سے آگاہ کریں۔
کیا ہر کسی کا دروازہ کھٹکھٹا کر نوٹس دیں؟
دوران سماعت وفاق اور پیپلزپارٹی نے نظرثانی اپیل کی حمایت جبکہ علی ظفر نے مخالفت کی، فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ہم رضاکارانہ طور پر پیش ہوئے، ہماری حاضری لگالیں، کل کوئی یہ نہ کہے کہ ہمیں نوٹس جاری نہیں ہوا تھا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میرا مؤکل جیل میں ہے،نوٹس ملے گاتو جاکر ہدایات لوں گا، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ آئینی معاملہ ہے اس پر ہدایات کیا لیں گے؟ کیا وہ آپ سے کہیں گے کہ آئین کو نہ مانو؟ کیا ہر کسی کا دروازہ کھٹکھٹا کر نوٹس دیں؟۔
علی ظفر نے کہا کہ موجودہ صدر مملکت نے نظرثانی دائر نہیں کر رکھی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سابق صدر پاکستان آکر معاونت کرنا چاہیں تو ویلکم، علی ظفر کی سماعت کے آخر میں دوبارہ بینچ پر اعتراض اٹھانے کی کوشش کی، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کل ہی سنیں گے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت بدھ کی صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔