پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے نظرثانی کیس کے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کی جانب سے باقاعدہ درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔
علی ظفر کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نظرثانی کیس کا بینچ قانون کے سیکشن 2 کے تحت تشکیل نہیں دیا گیا، صدارتی آرڈیننس کے مطابق بھی ججز کمیٹی 3 رکنی ہی ہوگی۔ قانون میں 3 ججز کو بینچز کی تشکیل کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔
درخواست کے متن کے مطابق 3 ججز کی اجتماعی دانش کے بعد ہی بینچ تشکیل اور مقدمات کی سماعت ہوسکتی ہے، یہ حقیقت ہے کہ کمیٹی اجلاس میں 3 ممبران کے بجائے 2 نے شرکت کی، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 23 ستمبر کو جسٹس منصور نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
جسٹس منصورکی غیرموجودگی میں چیف جسٹس اور نامزد جج نے درخواست مقرر کی،2 ججزکےفیصلےکو3رکنی کمیٹی کا فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا، در رکنی کمیٹی مقدمات کی سماعت کےلیے بینچ تشکیل نہیں دے سکتی۔
قبل ازیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست پر دوران سماعت اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تمام سائلین کے مقدمات ایک شخص کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جاسکتے۔
بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی تب ہی بینچ بنا سکتی ہے جب تینوں ممبران موجود ہوں، ایک ممبر موجود نہ ہو تو 2 ممبران فیصلے نہیں کرسکتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بیرسٹر علی ظفر میں آپ سے متفق نہیں ہوں، اگر ایسا ہوا تو پھر یہ عدالت غیر فعال ہوجائے گی۔ ایک شخص کی صوابدید پر تمام سائلین کے مقدمات نہیں چھوڑے جاسکتے۔