چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست پر دوران سماعت اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تمام سائلین کے مقدمات ایک شخص کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جاسکتے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ٰ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے سماعت کیں جبکہ لارجر بینج کے رکن جسٹس منیب اختر نے موجودہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے بنائے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کا خط پڑھ کر سنا دیا، جسٹس منیب اختر نے خط میں لکھا کہ میں یہ کیس سننے سے معذرت نہیں کررہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ بن چکا ہو تو کیس سننے سے معذرت صرف عدالت میں ہی ہوسکتی ہے، ہم جسٹس منیب کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ نیا بینچ بنے گا۔
بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی تب ہی بینچ بنا سکتی ہے جب تینوں ممبران موجود ہوں، ایک ممبر موجود نہ ہو تو 2 ممبران فیصلے نہیں کرسکتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بیرسٹر علی ظفر میں آپ سے متفق نہیں ہوں، اگر ایسا ہوا تو پھر یہ عدالت غیر فعال ہوجائے گی۔ ایک شخص کی صوابدید پر تمام سائلین کے مقدمات نہیں چھوڑے جاسکتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس منیب اختر کو بنچ کا حصہ بنانے کی کوشش کی جائیگی، بینچ بن جانے کے بعد جج کیس سے معذرت اوپن کورٹ میں ہی کر سکتا ہے، جسٹس منیب راضی نہ ہوئے تو بینچ کی تشکیل نو ہو سکتی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
آرٹیکل 63 کیا ہے؟
آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔
فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔