سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے اجلاس کے دوران گیس سیکٹر اور پی ایس او سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات نے سب کو حیران کر کے رکھ دیاہے ۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے اجلاس میں گیس سیکٹر کے بھاری گردشی قرضوں کی گونچ اٹھی، وزارت پیٹرولیم حکام نے بتایا گذشتہ دس سال کےدوران گردشی قرضے میں سترہ سو ارب روپے اضافہ ہوا اور اب 2 ہزار 897 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ۔ ایم ڈی پی ایس او نے دھماکا خیز انکشاف کیا کہ ان کا ادارہ لٹ چکا ہے ، جن سرکاری کمپنیوں سے آٹھ سو ارب روپے کے واجبات وصول کرنے ہیں وہ دیوالیہ ہو چکی ہیں ۔
چارج شیٹ وزارت پٹرولیم حکام نےسینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں پیش کی۔ بتایا گیا کہ 2013 سے 2023 کے دوران گیس ٹیرف نہ بڑھانے کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ قابو سےباہر ہوا اور 1700 ارب روپے اضافے کے ساتھ 2 ہزار 897 ارب روپے تک پہنچ گیا ، حال ہی میں آئی ایم ایف کے دباؤ پر گیس کی قیمتوں میں تین بار اضافے سے گردشی قرضے میں اضافے کا بہاؤ اب رک گیا ہے ۔۔ گیس کی سرکاری قیمت خرید اور فروخت میں 800 ارب روپے سالانہ کا گیپ ہے ۔
وزارت پیٹرولیم حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ صرف تین بڑی کمپنیوں کے ذمے 2752 ارب روپے واجب الادا ہیں ، جو مجموعی سرکلر ڈیٹ کا 95 فیصد ہے ، ان میں او جی ڈی سی ایل کا حصہ 1133 ارب روپے ، پی ایس او کے 816 ارب روپے جبکہ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کا گردشی قرضے میں حصہ 803 ارب روپے ہے ، رکن کمیٹی راجا ناصر عباس نے کہا پی ایس او تو حاتم طائی ہے ۔
ایم ڈی پی ایس او نے بتایا ہم نے مختلف سرکاری اداروں سے 800 ارب روپے وصول کرنے ہیں لیکن وہ بینک کرپٹ ہو چکے ہیں ۔ ان میں پاور سیکٹر، پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز بھی شامل ہیں ۔ کمیٹی کو کچھ اچھی باتیں بھی بتائی گئیں ۔ کہ تیل و گیس سیکٹر میں 5 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا امکان ہے۔ سمندر میں تیل وگیس کی تلاش کا کام جنوری 2025 میں شروع ہوگا جس کے لئے 24 بلاکس کے لائسنس دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ چین کی سرکاری کمپنی کو بھی تیل و گیس سیکٹر میں سرمایہ کاری کیلئے قائل کیا جائے گا ۔