سگریٹ کی قیمتوں میں خاطرخواہ اضافے کے بعد 18 فیصد لوگوں نے سگریٹ نوشی ترک کردی ہے ۔ یہ انکشاف سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ (سی آر ڈی )کی جانب سے کیے گئے ایک حالیہ سروے میں کیا گیا ہے ۔گزشتہ روز جاری ایک بیان میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کی ڈائریکٹر مریم گل طاہر کا کہنا تھاکہ حالیہ سروے کے نتائج نے ظاہر کیا ہے کہ ٹیکس میں اضافہ صحت عامہ اور حکومتی محصول دونوں کے لیے کامیابی کا باعث بنتا ہے۔یہ نتائج تمباکو کے استعمال سے نمٹنے کے لیے ایک اہم اقدام کے طور پر تمباکو پر زیادہ ٹیکس لگانے کی تاثیر کو اجاگر کرتے ہیں، جیسا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او)کی طرف سے بھی اس کی تجویز دی گئی ہے۔ماضی میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں تمباکو کی صنعت پر ملٹی نیشنل کارپوریشنز کا بہت زیادہ اثر و رسوخ پایا گیاہے۔تاہم، حالیہ حکومتی فیصلے صنعت کے مفادات پر صحت عامہ کو ترجیح دینے کے مقصد سے پالیسی میں اصلاحی تبدیلی کا اشارہ دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں حکومت نے برسوں کے جمود کے بعد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی ) کی شرح میں اضافہ کیاہے۔ پالیسی کی تبدیلی نہ صرف صحت عامہ کی حفاظت کا باعث بنی ہے بلکہ تمباکو نوشی سے متعلق صحت کی دیکھ بھال پر اٹھنے والے اخراجات سے وابستہ معاشی بوجھ کو کم کرنے کی جانب بھی ایک اہم قدم ثابت ہورہی ہے۔گزشتہ سال فروری میں، 2023 کے فنانس (ضمنی) ایکٹ نے اکانومی برانڈز کے لیے ایف ای ڈیکی شرح میں 146 فیصد اور پریمیم برانڈز کے لیے 154 فیصد اضافہ سامنے آیا جو پچھلی پالیسیوں سے علیحدگی کی علامت ہے۔اس اسٹریٹجک فیصلے نے پہلے ہی ٹھوس نتائج ظاہر کیے ہیں، سگریٹ کی کھپت میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف )کی ایک رپورٹ نے اس مثبت رجحان کو تسلیم کیاہے کیونکہ ٹیکس میں اضافے کے بعد سگریٹ کی کھپت میں 20-25 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔مذکورہ سروے کے نتائج نہ صرف مجموعی کھپت میں کمی کوظاہر کرتے ہیں بلکہ تمباکو نوشی کرنے والوں کے رویے میں تبدیلی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔سروے میں حصہ لینے والوں میں سے تقریبا 15 فیصد جواب دہندگان نے بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے سگریٹ کے استعمال میں کمی کی بات کی ہے۔اس ردعمل نے 11 ارب سے زیادہ سگریٹ کی کھپت میں تخمینہ کمی کی ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سگریٹ کی کل کھپت سالانہ 72 سے 80 بلین سٹکس کے درمیان ہے، جس میں مختلف ذرائع جیسے کہ سرکاری طور پر تیار کردہ، اسمگل شدہ اور بغیر ٹیکس کی مصنوعات بھی شامل ہیں۔امجد قمر کا اس حوالے سے مزید کہنا تھاکہ ہم حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوائد کودیکھے اور سگریٹ کی قیمتوں میں اضافے کی پالیسی کو جاری رکھے تاکہ کھپت میں کمی کا رجحان برقرار رکھا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اب بھی علاقائی ممالک اور باقی دنیا سے پیچھے ہے کیونکہ سگریٹ کی قیمتیں دیگر کے مقابلے میں ابھی بھی کم ہیں۔بھاری ٹیکس لگانے کا مطالبہ بین الاقوامی رہنما خطوط کے مطابق ہے، خاص طور پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول(ڈبلیو ایچ اور ایف سی ٹی سی ) جو بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کم کھپت کے درمیان تعلق پر زور دیتا ہے۔آئی ایم ایف نے تمباکو کی مصنوعات پر یکساں ٹیکس کے ڈھانچے کی تجویز دی ہے تاکہ کھپت کو کم کیا جاسکے اور حکومتی محصولات کو بڑھایا جاسکے۔اسی طرح، ورلڈ بینک نے نشاندہی کی کہ ''جی ڈی پی کا 0.4 فیصد 505.26 ارب روپے کا ایک اہم ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے جو کہ پریمیم سگریٹ 16.50 روپے فی سگریٹ کی موجودہ شرح کو معیاری سگریٹ پر بھی لاگو کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔