سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین اور عدلیہ کی آزادی کے منافی نہیں اور ایکٹ سے شفافیت اور انصاف تک رسائی میں مدد ملے گی۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا کہ قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے، اداروں کے درمیان باہمی احترام کے آئینی تقاضے ہیں اور باہمی احترام کا تقاضا ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمان کے رائے کو اپنی رائے سے تبدیل نہ کرے۔
عدالت عظمیٰ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین اور عدلیہ کی آزادی کے منافی نہیں جبکہ ایکٹ سے شفافیت اور انصاف تک رسائی میں مدد ملے گی اور چیف جسٹس اور دو سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی سے عدلیہ
زیادہ بااختیار ہوگی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق دیا گیا ہے جبکہ فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دنیا بھر کے قوانین کیساتھ شرعی تقاضا بھی ہے۔
فیصلے کے مطابق درخواست گزاروں کی جانب سے اٹھائے گئے دیگر نکات پر غور کرنا اکیڈیمک بحث ہی ہوگی۔
بائیس صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریری کیا جس میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بننے سے پہلے ہی عدالت نے حکم امتناع جاری کر دیا، آئین سپریم کورٹ کو لامحدود اختیارات نہیں دیتا اور آئین چیف جسٹس کو اکیلے ہی فیصلے کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیتا، چیف جسٹس کا ماسٹر آف روسٹرز ہونا آئین میں کہیں نہیں لکھا۔
فیصلے کے مطابق جمہوریت کی بنیاد پر قائم آئین میں ماسٹر کا لفظ تضحیک آمیز ہے، ماسٹر کا لفظ غلامی کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو آئین اور شرعی اصولوں کیخلاف ہے، شرعی اصول بھی ایک سے زائد افراد کے درمیان ہونے والے معاملے میں مشاورت لازمی قرار دیتے ہیں، اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنا دراصل دوسروں کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عدلیہ کی ساکھ متاثر ہونے سے ملک اور عوام کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے مگر خود سپریم کورٹ پر نہیں، سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے کو چھوٹے بنچز کے فیصلوں پر فوقیت دی جاتی ہے، آئینی روایات کو قانون کی طرز پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔