ستائیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ 7 نومبر کو سینیٹ اجلاس میں پیش کرنے کا امکان ہے۔ حکومت نے سینیٹ میں جے یو آئی کے بغیر ہی تعداد پوری ہونے کا دعویٰ کردیا۔ 96 کے ایوان میں حکومت کو 65 ارکان کی حمایت ملنے کا قوی یقین ہے۔
ذرائع نائب وزیراعظم کے مطابق ستائیسویں آئینی ترمیم کےلیے اے این پی کے 3 سینیٹر کی حمایت ملنے کا امکان ہے۔ آزاد سینیٹر نسیمہ احسان سے بھی حمایت کی یقین دہانی حاصل کرلی گئی۔
ذرائع کے مطابق مزید 6 آزاد سینیٹرز بھی 27ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالیں گے، محسن نقوی، عبدالکریم، فیصل واوڈا، عبدالقادر، انوارالحق کاکڑ اور اسد قاسم شامل ہیں۔ ضرورت پڑنے پر جے یو آئی کے 2 سینیٹرز کی حمایت لینے کی بھی کوششیں جاری ہیں۔
ایوان بالا میں پیپلزپارٹی26 اراکین کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے،حکومتی اتحاد میں مسلم لیگ ن کے 20،بی اے پی 4، ایم کیو ایم کے 3 ارکان شامل ہیں۔ اے این پی کے 3، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینیٹر بھی موجود ہیں۔
سینٹ میں اپوزیشن کو 29 اراکین کی حمایت حاصل ہے، اپوزیشن بینچوں پر پی ٹی آئی کے 14 اور جے یو آئی کے 7 سینیٹرز موجود ہیں۔ 6 آزاد ، ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل ایک ایک رکن بھی اپوزیشن کا حصہ ہے۔ اپوزیشن کے آزاد ارکان مراد سعید اور خرم ذیشان نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا۔
واضح رہے کہ حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں ترمیم کی منظوری کے لیے واضح دو تہائی اکثریت حاصل ہے، حکومت کو قومی اسمبلی میں 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جب کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 224 ووٹ درکار ہیں، قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 125، پی پی پی کے 74 ارکان، متحدہ قومی موومنٹ کے 22، پاکستان مسلم لیگ 5 ، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے 4 ارکان اتحاد کا حصہ ہیں۔
مجوزہ 27 ویں ترمیم کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان کے بجائے چیف جسٹس آئینی عدالت کو دی جائے گی ۔ ہائیکورٹ جج کے تبادلے کیلئے متعلقہ جج اور چیف جسٹس کی رضامندی کی شق بھی ختم کردی جائے گی۔ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کرنے کی گنجائش سمیت بہبود آبادی اور محکمہ تعلیم بھی صوبوں سے واپس لینے کی تجاویز دی گئی ہیں۔





















