زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان کی جانب سے قلعہ عبداللہ سید حمید کراس کے مقام پر احتجاج میں بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں جبکہ چمن کو کوئٹہ شہر سے ملانے والی مین شاہراہ کومکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
راستہ بند ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں ٹرانسپورٹ معطل، گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں۔ مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہے مسافروں میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد موجود ہے جو واپس افغانستان جانے کے لئے نکلے تھے ۔
زمینداروں کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے مطالبات نا مانے گئے تو احتجاج کو وسیع پیمانے پر لے جائیں گے، بار بار حکومت سے مطالبہ کرتے رہے لیکن کبھی ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے نہیں سنا گیا ، ایسے میں راستا بند کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
سماء کے نمائندے منصور اچکزئی سے زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنما کاظم خان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت کے آتے ہی حکومت نے 24 گھنٹوں میں قلعہ عبداللہ کی بجلی دو گھنٹے کر دی ، بجلی کے نا ہونے سے علاقے کے باغات خشک سالی کا سامنا کر رہے ہیں اور زمینداروں کی سالوں کی محنت ضائع ہو رہی ہیں، حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان زمینداروں پر رحم کریں، یہاں کے لوگوں کا روزگار زمینداری سے جڑاہے۔
جبار کاکڑ زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنما نے کہا کہ کیسکو اور ماضی کے حکومتی انتظامیہ سے ہمارے پہلے کے معاہدے موجود ہے جن پر عمل درآمد کیا جائے ، ان معاہدوں میں 12 ہزار بل مقرر کیا گیا تھا جو اب بھی ہم دے رہے ہیں اور اسی طرح 8 گھنٹے کی بجلی معاہدے کے مطابق ہمیں ملنی چاہیے تھی جو اب تک ممکن نہیں ہوسکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج اس نگران حکومت کے دور میں یہ بجلی 2 گھنٹے ہوگئی ہے جس سے ہمارے باغات نے ریگستان کی صورت اختیار کر لی ہے۔
زمینداروں کی جانب سے احتجاج میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بجلی دو گھنٹوں سے بڑھا کر 8 گھنٹے تک کر دے۔
احتجاج کے شرکا نے نگران وزیراعظم انور الحق کاکڑ ، نگران وزیر داخلہ سرافراز بگٹی اور بلوچستان گورنر عبد الولی کاکڑ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان مطالبات پر عمل درآمد کر وائے اور قلعہ عبداللہ کی باغات کو ختم ہونے سے بچائے۔