سپریم کورٹ نے فاروق ایچ نائیک کی نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے تک نیب عدالتوں کو بحال شدہ مقدمات کے حتمی فیصلے سنانے سے روک دیا۔
منگل کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔
عدالت عظمیٰ نے آج ہونے والی سماعت کا حکم نامہ جاری کیا جس میں نیب عدالتوں کو بحال شدہ مقدمات کے حتمی فیصلے سنانے سے روک دیا گیا ہے جبکہ مقدمات کی سماعت جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اوپن کورٹ میں حکمنامہ لکھوایا جس میں کہا گیا کہ دوران سماعت بتایا گیا تین مختلف ترامیم آئی تھیں، فیصلے میں تیسری ترمیم کا ذکر نہ ہونے سے ٹرائل کورٹس کیلئے ابہام پیدا ہوا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ترامیم انٹرا کورٹ اپیل دوبارہ مقرر کی جائے۔
عدالت عظمیٰ نے چیئرمین پی ٹی آئی ، اٹارنی جنرل اور تمام ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس بھی جاری کر دیئے۔
منگل کو ہونے والی سماعت کا احوال
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ وکیل مخدوم علی خان بیرون ملک ہیں اور التوا کی درخواست دی گئی ہے، تاہم، کچھ گزارشات پیش کر سکتا ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے کچھ اور درخواستیں بھی آئی ہیں۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ درخواستیں میں نے کچھ فریقین کی جانب سے دی ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے اس کیس میں آپ فریق نہیں تھے۔
فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ میرے موکل نیب ملزم ہیں انہیں فریق بنائے بغیر یہ فیصلہ دیا گیا، میں نے 2 نظرثانی کی درخواستیں دی تھیں اور ایک اپیل دائر کی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپیل اور نظرثانی کا اسکوپ الگ الگ ہے جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نظرثانی درخواستیں واپس لے کر اپیل کی پیروی کرنا چاہتا ہوں، میری گزارش ہو گی کہ اپیل میں مجھے سنا ضرور جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانونی سوال ہے جب آپ فریق نہیں تو سنا کیسے جائے۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کے معاون وکیل کو درخواست پڑھنے کی ہدایت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے لکھا نیب ترمیم کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت 5 رکنی بینچ نےسننا تھا، آپ اس نکتے پر قائم ہیں تو پھر اس نکتے پر مطمئن کریں، اگر اس نکتے پر مطمئن کر لیا تو اپیل کے میرٹس پر نہیں جائیں گے، ایسی صورت میں ہم ترامیم کیخلاف درخواستیں بحال کر کے نیا بینچ بنا دیں گے، یا پھر اس نکتے کو واپس لے لیں، آپ پھراپیل چلانے سے پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کریں۔
فاروق ایچ نائیک نے استدعا کی کہ ایسا نہ کریں موجودہ اپیلیں ہی چلائیں، ایسا کیا تو نیب کورٹس میں مقدمات چلنا شروع ہو جائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دیکھیں مخدوم علی خان نے اپنی درخواست میں یہ گراؤنڈ لے رکھی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک سوال یہ ہے فیصلے سے وفاقی حکومت کیسے متاثرہ فریق ہے، قانون سازوں نے اپیل کا حق صرف متاثرہ شخص کو دیا ہے، اس عدالت نے بھی متاثرہ شخص کی فیصلوں میں تشریح کر رکھی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکٹروں لوگوں میں سے صرف فاروق ایچ نائیک کے موکل متاثرہ فریق ہیں جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ نیب ترامیم سے صرف کارروائی کا فورم بدلا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا تفصیلی فیصلہ آنے دیں پھر اس کیس کو مقرر کر دیتے ہیں جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس وقت تک کئی مقدمات کا احتساب عدالتوں سے فیصلہ ہو جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمیں پھر حل بتائیں۔
فاروق ایچ نائیک کی استدعا
فاروق ایچ نائیک نے استدعا کی ترامیم کالعدم قرار دینے والا فیصلہ معطل کر دیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ احتساب عدالتوں کو حتمی فیصلے سے روکا بھی جاسکتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ترامیم کالعدم ہونے نہ ہونے سے صرف فورم بدلتا ہے، ہم اسٹے آرڈر دے دیں تو سارا کام رک جائے گا، یہ کیوں نہ کریں ترامیم چیلنج کرنے والی درخواست کو بنا بینچ بنا کرسن لیا جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ساری نیب ترامیم فیصلے سے اڑگئیں یا کچھ بچی ہیں؟، جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ جو تیسری ترامیم آئیں انہیں چھیڑا ہی نہیں گیا، پہلی اور دوسری ترامیم میں سے کچھ ختم کردی گئیں کچھ باقی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اکثریتی فیصلے میں جس گراؤنڈ پرانحصار کیا گیا اس کا تیسری ترامیم سے تعلق ہے، تیسری ترامیم کو چھیڑے بغیر وہ فیصلہ کیسے کرسکتے تھے؟۔
معاون وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پہلی ترامیم چیلنج کی گیئں تو دوسری ترامیم آئیں، پھر درخواست گزار نے درخواستوں میں ترامیم کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تیسری ترمیم کب آئیں؟، وکیل نے بتایا کہ تیسری ترمیم مئی 2023 میں آئی ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر تو کافی وقت تھا تیسری ترمیم پر بھی درخواست گزار اپنی درخواست بدل سکتا تھا، پھر تو یہ بات درست ہے کہ اگر ترامیم کالعدم ہونا تھی تو تیسری ترمیم بھی کالعدم ہونا تھی، فیصلے میں اگر تیسری ترامیم کا ذکر ہے تو پھر ان پر فیصلہ بھی ہونا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تیسری ترمیم آنے کے بعد چھ سماعتیں ہوئیں، ایسی صورت میں تیسری ترمیم پر بھی فیصلہ ہونا چاہیے تھا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت نیب ترامیم کیس 5 رکنی بینچ کو ہی سننا تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل معطل ہوا تھا ایکٹ کبھی معطل نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابھی پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا، ہوسکتا ہے اس فیصلے میں اس نکتے پر بھی فیصلہ موجود ہو، ایسی صورت میں ہم اس کیس کو آج نہیں چلا سکتے، کیا ایک ٹرائل کورٹ میں ریکارڈ شواہد فورم بدل جانے پر دوسری عدالت میں قابل قبول شہادت ہیں؟۔
جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیئے کہ ٹرائل کورٹ کے جج پر تشریحات کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے، ٹرائل کورٹ کے جج کو صرف ٹرائل تک رکھنا چاہیے، ہم صرف فیصلہ کے اثرات سے متعلق سوالات اٹھا رہے ہیں آج فیصلہ نہیں کر رہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ تیسری ترمیم بڑی واضح کہہ رہی ہے کہ الزامات پر دوسری جگہ ٹرائل ہوگا، تیسری ترمیم اس لیے اہم ہے کہ ان میں احتساب عدالت میں ہوچکی کارروائی کو تحفظ فراہم کیا گیا، پیرا گراف 49 کو معطل کرنے کا مطلب آپ کے مقدمات دوسرے فورم پر جائیں گے، تیسری ترمیم بڑی واضح ہے کہ ٹرائل کہیں نہ کہیں چلے گا۔