بھارت میں "کسانوں کا دہلی چلو مارچ" پچھلے8 روز سے جار ی ہے، حکومت کے ساتھ مذکرات میں ناکامی کے بعد احتجاج میں شریک کسانوں نے ایک بار پھر دارالحکومت نئی دہلی کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسانوں کے مطالبات سے مودی سرکار بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے۔
کسانوں نے گذشتہ ہفتے دہلی کی طرف مارچ شروع کیا تھا لیکن انہیں دارالحکومت سے تقریباً 200 کلومیٹر دور روک دیا گیا تھا جس کے بعد کسان رہنما اپنے مطالبات پر حکومت سے مذاکرات کر رہے تھے تاہم اب کسان رہنماؤں کی جانب سے حکومتی تجاویز کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
مذاکرات کے ناکامی کے بعد ریٹائرڈ سکھ فوجی نے مودی سرکار کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے ساتھ کوئی زیادتی کی تو ہمارے سپاہی بچے بارڈر چھوڑ دیں گے اور 10منٹ کے اندر چین اور پاکستان دہلی پہنچ جائے گا۔
سکھ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ آگے بڑھنا ہماری مجبوری بن گئی ہے، اب آگے جو بھی ہو گا اس کا ذمہ دار مودی سرکار خود ہوگی۔ کسان رہنماؤں نے نئے نظام پر مودی سرکار کی پیشکش کو ٹھکرادیا ہے۔
دوسری طرف مارچ کے شرکاء پولیس کے بے ہیمانہ تشدد کے باوجود اپنے حق پر ڈٹے ہوئے ہیں، مظاہرین نے21فروری کو دہلی میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ احتجاجی کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے 2020 میں کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔
واضح رہے 2020 میں بھی ہزاروں کسانوں نے متنازع زرعی اصلاحات کے خلاف دہلی کی سرحد پر دھرنا دیا جس کے بعد مودی سرکار کو نئے قوانین معطل کرنے پڑے تھے۔