امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے تنقیدی آوازوں کو بدنام کرنے کے مودی کا خفیہ آپریشن بے نقاب کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق مودی سرکار کی تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر واشنگٹن پوسٹ کی چشم کشا رپورٹ سامنے آگئی، معروف امریکی جریدے نے مودی کی ذاتی تشہیر اور تنقیدی آوازوں کو بدنام کرنے کے خفیہ آپریشن کو بے نقاب کر دیا۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق مودی نے خود کی تشہیر اور مخالف آوازوں کو بدنام کرنے کے لیے ڈس انفو لیب کے نام سے امریکہ میں تنظیم بنائی، ڈس انفو لیب مودی پر تنقید کرنے والے ہر شخص اور تنظیم کا تعلق کسی نہ کسی اسلامی یا سازشی گروہ سے ظاہر کرتی ہے اور تنقیدی آوازوں کو مودی کے خلاف عالمی سازش قرار دیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں مودی پر تنقید کرنے والے امریکی ارب پتی جارج سوروز کا تعلق اخوان المسلمین اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں سے بھی ظاہر کر دیا گیا، ڈس انفو لیب یہ ظاہر کرتی ہے کہ عالمی دنیا مودی کے زیر حکومت ہندوستان کی ترقی سے خائف اور تنقیدی آوازیں عالمی سازش کا حصہ ہیں۔
Explosive Revelations!
— SAMAA TV (@SAMAATV) December 12, 2023
Memo from the #Indian Ministry of External Affairs (April 2023) reveals sinister plot, instructing consulates in #NorthAmerica to crackdown on Sikh leaders.
Forensic reports confirm #ForeignSecretary Vinay Kotra's signature. #SamaaTV pic.twitter.com/XZMW0bcgnA
معروف امریکی اخبار کے مطابق مودی کے تنخواہ دار صحافی ان جھوٹی تحقیقاتی رپورٹوں کو نیوز چینلز اور عالمی میڈیا پر ذرائع کے طور پر استعمال کرتی ہے، ٹوئٹر پر ڈس انفو لیب کی رپورٹس کو پھیلانے والے 250 اکاؤنٹس میں 35 مودی کے وزراء، 14 سرکاری اہلکار اور 61 مودی کے تنخواہ دار صحافی ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈس انفو لیب بھارتی خفیہ ایجنسی را کے افسر لیفٹیننٹ کرنل ستپاٹھی نے 2020 میں بنائی ہے جو ڈس انفو لیب نے اب تک 28 رپورٹس شائع کیں، سب کی سب پاکستان مخالف اور مودی کے حق میں ہیں۔
کرنل ستپاٹھی شکتی کے جعلی نام سے عالمی نشریاتی اداروں کو ہندوستان کے حق میں اور پاکستان اور چین کے خلاف مواد نشر کرنے پر لابنگ کرتا رہا، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ را کے ایسے اقدامات سرد جنگ کے دوران کے جی بی کے اقدامات سے مماثلت رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ماضی قریب میں ہونے والے اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ مودی سرکار کو بھارت کے اندر یا باہر کہیں بھی تنقید پسند نہیں۔
خیال رہے کہ عالمی میڈیا ماضی میں کئی بار مودی سرکار اور بی جے پی کے سوشل میڈیا آپریشنز کا پردہ چاک کر چکا ہے، گزشتہ ماہ دی وائر نے خبر شائع کی کہ بی جے پی نے اسلاموفوبیا کو ہوا دینے کی لیے واٹس ایپ اور فیس بک گروپ بنائے ہوئے ہیں۔
اس سے قبل جنوری 2023 میں ایلون مسک نے دعویٰ کیا کہ مودی سرکار نے ٹوئٹر کو مودی مخالف ٹویٹس ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالا، فروری 2023 میں مودی مخالف ڈاکومنٹری نشر کرنے پر بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے بھی مارے گئے۔ رواں سال مارچ میں مودی پر تنقید کرنے پر کانگریس رہنما راہول گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت بھی معطل کر دی گئی تھی۔