سندھ کے شہید بےنظیر آباد ڈویژن میں شامل ضلع سانگھڑ کی سیاسی صورتحال لمحہ بہ لمحہ بدلتی نظر آرہی ہے ۔ 2023 کی ابتدائی حلقہ بندیوں کے مطابق ضلع سانگھڑ کو ایک قومی اور ایک صوبائی نشست سے محروم کر دیا گیا ہے ۔ یوں ضلع سانگھڑ کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 2 جبکہ صوبائی نشستوں کی تعداد 5 ہو گئی ہے ۔ 2018 کے عام انتخابات ضلع میں 3 قومی جبکہ 6 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات ہوئے اور قومی اسمبلی کی3 نشستوں پر پیپلزپارٹی نے کلین سوئپ کیا جبکہ صوبائی اسمبلی سندھ کی 3 نشستیں پیپلز پارٹی کے حصے میں آئیں جبکہ 3 صوبائی نشستوں پر گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے امیدوار فاتح رہے ۔
نئی حلقہ بندیاں کے بعد آنے والی تبدیلیاں کیا؟
2018 میں ضلع سانگھڑ قومی اسمبلی کی 3 نشستوں این اے 215،216 اور 217 جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پی ایس 41 تا 46 پر مشتمل تھا ۔ 2023 کی ابتدائی حلقہ بندیوں کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک ،ایک نشست میں کمی کر دی گئی ہے اور اب ضلع سانگھڑ قومی اسمبلی کی نشست این اے 209 اور 210 جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 40 تا 44 پر مشتمل ہے ۔
2023 کی ابتدائی حلقہ بندیوں کے بعد این اے 215 کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ این اے 215 میں شامل علاقے سانگھڑ سٹی ،ٹنڈو مٹھا خان اور بکھوڑو کو نئے حلقہ این اے 209 میں جبکہ سنجھوڑو ، کھدڑو ،پریتم آباد، شاہ پور چاکر ، سرکی کنڈی اور سرہوری کو نئے حلقہ این اے 210 میں شامل کر دیا گیا ہے ۔اسی طرح صوبائی نشستوں میں بھی ردو بدل کیا گیا ہے ۔پرانے حلقہ پی ایس 46 میں شامل علاقے سنجھوڑو ، کھدڑو،اور پریتم آباد کو نئے حلقہ پی ایس 40 میں ، پرانے حلقہ پی ایس 46 میں شامل شاہ پور چاکر کو نئے حلقہ پی ایس 44 میں ، پرانے حلقہ پی ایس 41 میں شامل علاقہ سادھنوکو نئے حلقہ پی ایس 42 میں ، پرانے حلقہ پی ایس 41 میں شامل علاقے ٹنڈو مٹھا خان کو نئے حلقہ پی ایس 41 میں اور پرانے حلقہ پی ایس 41 میں شامل علاقہ تھہیم کو نئے حلقہ پی ایس 42 میں شامل کر دیا گیا ہے ۔
سانگھڑ کی سیاسی صورتحال کشمکش کا شکار ہے ۔حلقوں میں تبدیلی کے باعث سیاسی اور عوامی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ سیاستدان اور عوامی حلقوں میں آنے والی تبدیلیوں کے پیش نظر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سیاستدانوں اور عوام کی جانب سےتمام نئے قومی و صوبائی حلقوں پر 20 اعتراضات دائر کئے گئے جن کے فیصلے م بھی حفوظ کر دیے گئے ہیں ۔ اعتراضات دائر کرنے والے سیاستدانوں میں شازیہ مری کی ہمشیرہ قرۃ العین مری ،سابق ایم پی اے شاہد تھہیم،معشوق علی ، اور سابق ایم این اے غلام دستگیر راجڑ کے بیٹے عبدالحکیم راجڑ بھی شامل ہیں ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 30 نومبر 2023 کو حتمی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کر دی جائے گی جس میں تمام تر شکوک و شبہات کا خاتمہ ہو جائے گا۔
مقامی صحافیوں نے سماء کو بتایا کہ ضلع میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں کمی ضلع کے ساتھ نا انصافی ہے ۔ اسی طرح شازیہ جنت مری نے بھی اپنے سابقہ بیان میں کہا تھا کہ وہ نا انصافی کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹائیں گی اور سانگھڑ کی عوام کو انصاف دلائیں گی ۔سابقہ این اے 216 کے امیدوار کشن چند پروانی نے بھی سماء سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ابتدائی حلقہ بندیاں ضلع کے ساتھ نا انصافی ہے ۔ حتمی حلقہ بندیاں ابتدائی حلقہ بندیوں کے مطابق ہوتی ہیں تو نشستیں کم ہونے سے پیپلز پارٹی کو نقصان ہو گا ۔
ضلع سانگھڑ کی سیاسی صورتحال
آئندہ الیکشن 2024 میں ضلع سانگھڑ کے قومی حلقوں کی بات کی جائے تو ایک نشست کم ہو جانے سے پیپلز پارٹی مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے ابھی تک اس بات کا حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا کہ قومی نشستوں پر پیپلز پارٹی کی جانب سے امیدوار کون ہو گا ۔نئے حلقہ این اے 209 میں پیپلز پارٹی کی جانب سےسابق ایم این اے شازیہ مری مضبوط امیدوار ہیں ،الیکشن 2018 میں 70 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے ۔ ان کے مدمقابل جی ڈی اے کی جانب سے حاجی خدا بخش راجڑ اور کشن چند پروانی ہو سکتے ہیں ۔دوسرے حلقہ این اے 210 سے پیپلز پارٹی کی جانب سے روشن الدین جونیجو مضبوط ترین امیدوار 2018 میں 1 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے ۔ان کے مدمقابل جی ڈی اے کی جانب وریام فقیر متوقع امیدوار ہو سکتے ہیں ۔صوبائی نشستوں کی بات کی جائے تو پیپلز پارٹی کی جانب سے معشوق علی چانڈیو اور رانا عبدالستار جبکہ جی ڈی اے کی جانب سے علی حسن نظامانی،سید خان نظامانی اور علی غلام نظامانی صوبائی نشستوں کے لئے مضبوط ترین امیدوار ہیں ۔
ووٹ بینک کی بات کہ جائے تو ضلع سانگھڑ ماضی میں مسلم لیگ فنگشنل کے ووٹرز کثیرتعداد میں موجود ہیں ۔ ضلع کی انتخابی سیاست میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ضلع کی تمام قومی اسمبلی کی نشستیں اپنے نام کیں ۔اس سے قبل مسلم لیگ فنگشنل کے امیدوار اں نشستوں پر کامیاب ہوت رہے ہیں ۔ 2018 کے انتخاب میں این اے 215 سے میں پیپلز پارٹی کے نوید ڈیرو بہت کم 568 ووٹوں کے مارجن سے کامیاب ہوئے۔ پرانے حلقہ این اے 216 میں بھی مری قبائل کا ووٹ بینک موجود ہیں ۔ شازیہ مری یہاں سے 2018 میں ایم این اے منتخب ہوئی تھیں ان کا زیادہ تر ووٹ بینک کھپرو کے علاقے میں موجود ہے ۔ تیسرے حلقہ این اے 217 پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ ہے اور پیپلز پارٹی کی جانب سے روشن الدین جونیجو یہاں سے تیسری مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں ۔آئندہ آنے والے انتخابات میں بھی ان کے کامیابی کے واضح امکانات ہیں ۔
2018 کے انتخابی نتائج میں کون جیتا کون ہارا
قومی اسمبلی کی نشست این اے 215 پر سخت مقابلہ ہوا پیپلزپارٹی اور جی ڈی اے کے امیدوار کے درمیان ہو،،پیپلز پارٹی کی جانب سے نوید ڈیرو 568 ووٹوں سے جیت گئے ۔نوید ڈیرو 77890 ووٹ حاصل کر کے پہلے جبکہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے حاجی خدا بخش راجڑ 77322 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے ۔اس قومی حلقہ میں صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 41 اور 46 آتے تھے ۔ این اے 215 کی طرح یہاں بھی سخت مقابلہ ہوا اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس پر 41گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے علی غلام نظامانی صرف 146 ووٹ کے فرق سے فاتح قرار پائے ۔انہوں نے 36081 جبکہ ان کے مخالف امیدوار پیپلز پارٹی کے معشوق علی تھے جنہوں نے 35935 ووٹ حاصل کئے ۔دوسرے حلقہ پی ایس 46 پر بھی سخت مقابلے کے بعد گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے وریام فقیر کامیاب ہوئے اور 42472 ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مدمقابل امیدوار پیپلز پارٹی کے رانا عبدالستار 41549 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے ۔
دوسری نشست این اے 216 پرپیپلز پارٹی کی جانب سے شازیہ جنت مری 80770 ووٹ حاصل کر کے پہلے جبکہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے کشن چند پروانی 70791 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے ۔اس قومی حلقہ میں دو صوبائی حلقے پی ایس 42 اور 43 آتے تھے ۔پی ایس 42 پر جی ڈی اے قاضی شمس الدین راجڑ 44636 ووٹ حاصل کر کےکامیاب قرار پائے جبکہ ان کے مدمقابل امیدوار پیپلز پارٹی کے علی حسن 35059 ووٹوں سے رنر اپ رہے۔ پی ایس 43 پر پیپلز پارٹی کے جام مدد علی خان 44750 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے اور ان کے مدمقابل امیدوار جی ڈی اے کے جام ذوالفقار علی خان 28495 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے ۔ جام مدد علی خان کے انتقال کے باعث یہ نشست خالی ہو گئی اور یہاں 17 فروری 2021 کو ضمنی انتخاب ہوا اور ان کے بھائی پیپلز پارٹی کی جانب سےجام شبیر علی خان 48697 ووٹ حاصل کر رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے ۔
تیسرےقومی حلقہ این اے 217 پر پیپلز پارٹی کے روشن الدین جونیجو 103232 بھاری ووٹوں سے کامیاب ہوئے انہوں نے اپنے مد مقابل جی ڈے اے کےمہر علی عرف ماہی خان کو شکست دی۔اس حلقہ میں صوبائی اسمبلی کی نشستیں پی ایس 44 اور 45 آتی تھیں ۔ پی ایس 44 پر پیپلز پارٹی کی جانب سے نوید ڈیرو کے بھائی فراز ڈیرو 54156 ووٹ حاصل کر کے فاتح رہے اور ان کے مدمقابل امیدوار جی ڈی اے نیاز حسین 13711 ووٹ حاصل کر سکے ۔دوسرے حلقہ پی ایس 45 پر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر شاہد تھہیم 45818 ووٹ حاصل کر کے پہلے جبکہ جی ڈی اے کے محمد بخش 31206 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے ۔آئندہ آنے والے انتخابات میں حلقہ بندیوں کے بعد حلقوں میں آنے والی تبدیلیوں سے امیدواروں پر تو اثر پڑے گا ہی مگر دیکھنا ی ہو گا ماضی کے حریف اپنے جیت کے لئے کیا نئی حکمت عملی اپناتے ہیں۔