طالبان کے افغانستان میں جبری دور حکومت کو تین سال مکمل ہوگئے۔
طالبان کے دور اقتدار میں ایک منظم طریقے سے خواتین کو سیاسی، سماجی اور تعلیمی زندگی سےخارج کردیا گیا۔
طالبان نےقانون کےذریعےخواتین کےلباس، آواز اورمرد سرپرست کےبغیرسفر پر پابندی کی توثیق کردی، یونیسکوکی ایک رپورٹ کےمطابق طالبان نےافغانستان میں 25 لاکھ لڑکیاں تعلیم سے محروم کر رکھی ہیں۔
افغان خواتین نےطالبان کے خلاف بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور صنفی امتیازی سلوک کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
خواتین مظاہرین کاکہنا ہےکہ"15اگست افغانستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن ہے، جب افغان عوام کو دہشت گرد طالبان کے حوالے کر دیا گیا"
طالبان کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر گرفتاریوں اور تشدد کا سامنا ہے۔
خواتین مظاہرین کاکہنا ہےکہ طالبان کے اقتدارمیں آنے کے بعد سے اس وقت 16 ملین سےزائد خواتین تشدد کا شکار ہیں،طالبان نے انسانیت سوز اور جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے،عالمی طاقتیں مالی امداد بند کرے۔
طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں مظالم سے بےحال خواتین کی قل آبادی میں اس وقت 80 فیصد ذہنی مسائل کا شکار ہیں ۔
آخر کب تک طالبان افغان خواتین کے حقوق سلب کرتے رہیں گے اور ان پر ظلم ڈھاتے رہیں گے؟۔