چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ لاہور اور چوہدری رحمت علی فورم لاہور کے اشتراک سے نام ’’ پاکستان ‘‘ کے خالق اور تحریک آزادی پاکستان کے اہم رہنما چوہدری رحمت علی کی یاد میں 29 فروری کو ایک سیمینار منعقد کیا جائے گا۔
جمعرات ( کل ) کو شیڈول پروگرام سہ پہر 4 بجے ادبی بیٹھک الحمراء سنٹر مال روڈ لاہور میں منعقد ہوگا جس میں نامور دانشور اور میڈیا سے وابستہ اہم شخصیات اور اہل علم اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔
اس موقع پر چوہدری رحمت علی کی دو کتابوں کی رونمائی بھی کی جائے گی۔
چوہدری رحمت علی کون ہیں ؟
تحریک پاکستان کے بانیوں میں سے ایک اور پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چوہدری رحمت علی حقیقی معنوں میں اس ملک کے ہیرو اور محسن ہیں، انہوں نے 1915ء میں پہلی مرتبہ یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہندوستان کے شمالی علاقوں کو ایک مسلم ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔
پیدائش و تعلیم
چودھری رحمت علی 16 نومبر1897ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے گاؤں مو ہراں میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام حاجی شاہ گجر تھا جو ایک متوسط طبقے کے زمیندار تھے، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم دینی مکتب سے حاصل کی اور میٹرک اینگلو سنسکرت ہائی سکول جالندھر سے کیا۔
بعدازاں، مذید تعلیم کے لئے 1914 میں لاہور تشریف لائے اور اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا اس دوران ’ دی کریسنٹ ‘ کے ایڈیٹر بھی رہے جبکہ دی فادرلینڈ آف پاک نیشن، مسلم ازم اور انڈس ازم کتابچے لکھے۔
انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور میں مولانا شبلی نعمانی سے متاثر ہونے کے باعث ’ بزم شبلی ‘ کی بنیاد بھی رکھی اور اس پلیٹ فارم سے ہی 1915 میں تقسیم ہند کا نظریہ پیش کیا۔
ہم ہندوستانیت سے جلد سے جلد جان چھڑا لیں
انہوں نے تقسیم ہند کا نظریہ پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”ہندوستان کا شمالی منطقہ اسلامی علاقہ ہے ، ہم اسے اسلامی ریاست میں تبدیل کریں گے لیکن یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس علاقے کے لوگ خود کو باقی ہندوستان سے منقطع کر لیں، اسلام اور خود ہمارے لئے بہتری اسی میں ہے کہ ہم ہندوستانیت سے جلد سے جلد جان چھڑا لیں“۔
کیئریر اور برطانیہ روانگی
چوہدری رحمت علی نے 1918 ء میں اپنی گریجویشن کے بعد ’ کشمیر گزٹ ‘ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنا کیئریرشروع کیا اور 1928ء میں ایچی سن کالج لاہور میں لیکچرار مقرر ہوئے تاہم، کچھ عرصہ بعد برطانیہ چلے گئے اور وہاں سے کیمبرج اور ڈبلن یونیورسٹیوں سے لاء اور پولیٹیکس میں ڈگریاں حاصل کیں۔
چودھری رحمت علی نے 1933 ءمیں دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہ ” نائو آر نیور“ شائع کیا جس کا اردو مطلب ’’ اب یا کبھی ‘‘ ہے، اور اسی کتابچے میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا جو بعد میں تحریک پاکستان کے قلعے کی آہنی دیوار ثابت ہوا اور دنیا لفظ ” پاکستان “ سے آشنا ہوئی۔
آپ نے یہ نام پنجاب ( پ ) افغانیہ ( ا ) کشمیر ( ک ) سندھ ( س ) اور بلوچستان ( تان ) سے اخذ کیا تھا جہاں مسلمان 1200 سال سے آباد تھے۔
1933 ء میں انہوں نے برصغیر کے طلباء پر مشتمل ایک تنظیم ’ پاکستان نیشنل لبریشن موومنٹ ‘ بھی قائم کی۔
انتقال
اپریل 1948ء میں وہ پاکستان تشریف لائے لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد واپس برطانیہ چلے گئے جہاں 29 جنوری 1951ء کو نمونیہ کے مرض میں مبتلا ہوئے اور 3 فروری کو کیمبرج کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے جس کے بعد انہیں وہیں پر دفن کیا گیا، ان کی وصیت تھی ان کے جسد خاکی کو پاکستان دفن کیا جائے لیکن اس وصیت پر تاحال عمل نہ ہوسکا۔
علامہ اقبال کے شعر
علامہ اقبال نے 23 جنوری 1935ء کو چوہدری رحمت علی کے نام ایک خط لکھا جس میں انہیں ’’ برادر گرامی قدر حضرت چودھری رحمت علی صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب کیا اور یہ شعر لکھے تھے،
’’ نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہداں کے لیے
نگاہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے۔۔۔۔‘‘