سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس منصورعلی شاہ کو جوابی خط لکھ دیا ہے جس کے متن میں کہا کہ عدلیہ میں ججز تعیناتی کےرولز اور سخت میکنزم سےمتعلق آپ کی تجاویز پہلےبھی زیر غور لائے کل والا خط بھی دیکھیں گے ، آئندہ بھی آپ اپنی تجاویز رولز کمیٹی کو دے سکتے ہیں ۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا خط میں مزید کہنا تھا کہ آپ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے تناظر میں بھی بات کی ۔ اس کا جواب نہیں دوں گا کیوں کہ درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں ۔ میری بھی یہی رائے ہے کہ آئین کی منشا ہےعدلیہ آزاد اور غیرجانبدار ہو۔ عدلیہ کے ممبران قابل اور دیانتدار ہونے چاہئیں،اسی مقصد کے لئے رولز بنا رہے ہیں ۔ آپ کے علم میں ہے چھبیسویں ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن دوبارہ تشکیل دیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ نئے کمیشن نےچیف جسٹس کو رولز بنانے کیلئےکمیٹی کی تشکیل کا اختیار دیا ۔ اور انہوں نے میری سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی ۔کمیٹی کے دو اجلاس ہو چکے ۔ آپ کی سفارشات پہلے ہی ڈرافٹ میں شامل کی جا چکی ہیں ۔ خط سے پہلے ہی مجوزہ ڈرافٹ آپ کے ساتھ شیئر بھی کر چکا ہوں ۔ کمیٹی کا مینڈیٹ صرف ججز تعیناتی کے رولز کا مسودہ تیار کرنا ہے ۔ معلوم ہوا کہ آپ نے تین ہائی کورٹس کیلئے ججز کے نام تجویز کئے ہیں ۔ میرا مشورہ ہے ججز کیلئے نام رولز کی کمیشن سے منظوری کے بعد دیں ۔ ججز تعیناتی سے متعلق آپکی تجاویز کا خیر مقدم کرتا ہوں ۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز جسٹس منصور علی شاہ نے رولز بنانے والی کمیٹی کے سربراہ جسٹس جمال مندو خیل کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ چھبیسویں ترمیم کے بعد ججز تعیناتی میں عدلیہ کے کردار کا توازن بگڑ چکا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کو ارسال خط میں جٹس منصور علی شاہ نے لکھا ججزتعیناتی میں عدلیہ کا اہم کردارہوتا تھا، چھبیسویں ترمیم کے بعد اب ججزتعیناتی میں ایگزیکٹوکا کردار بڑھ چکا ہے، ایک بھی تعیناتی سخت رولزکی کسوٹی کیخلاف ہوئی توعدلیہ پراعتماد میں کمی آئےگی، خط میں کہا گیا ہے جوڈیشل کمیشن کےرولزبنانےکامعاملہ عدلیہ کی آزادی کیلئےنہایت اہمیت کا حامل ہے، رولز بنائے بغیر ججز تعیناتی کےحوالےسےجوڈیشل کمیشن کی کارروائی اور تمام اقدامات غیرآئینی ہوں گے ۔